بھارت میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ، طالبہ باغی قرار، جیل بھیج دیا

جلسے میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو گیا جب کالج کی 18 سالہ طالبہ امولیہ لیونا نے اسٹیج پر آ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا شروع کر دیا

جلسے میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو گیا جب کالج کی 18 سالہ طالبہ امولیہ لیونا نے اسٹیج پر آ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا شروع کر دیا

بنگلور ۔۔۔ نیوز ٹائم

بھارتی ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو میں مودی سرکار کے متنازع شہریت قانون کے خلاف آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین  (All India Majlis-i-Ittehadul Muslimeen) کی جانب سے نکالی گئی ریلی میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والی طالبہ کو بغاوت کا مقدمہ درج کر کے 14 روزہ ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ خبر رساں اداروں کے مطابق جلسے میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو گیا جب کالج کی 18 سالہ طالبہ امولیہ لیونا (Amulya Leona)نے اسٹیج پر آ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ اس واقعے کی وڈیو سوشل میڈیا سمیت نشریاتی ذرائع ابلاغ پر بہت تیزی سے وائرل ہوئیں،  جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین  (All India Majlis-i-Ittehadul Muslimeen) کے صدر اسدالدین اویسی (Asaduddin Owaisi) سمیت کئی لوگ طالبہ کے ہاتھ سے مائیک چھیننے اور اسے چپ کرانے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم لڑکی مسلسل نعرے لگاتی رہتی ہے۔

بعد ازاں طالبہ کو گرفتار کر کے 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ توقع ہے کہ بھارتی پولیس نعرے لگانے کے حوالے سے طالبہ سے تفتیش کرے گی، جس کے بعد اسے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ پاکستان کے حق میں نعرہ لگانے کے واقعے کے بعد بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کرناٹک کانگریس نے روایتی نفرت انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ دشمن ملک کے حق میں نعرے بازی کرنا غلط ہے، حکومت کو اس واقعے پر مناسب قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ دریں اثنا بھارتی حکمران جماعت اور لوک سبھا کی رکن شوبھا کرن دلجی (Shobha Kiran Dilji) نے ہرزہ گوئی کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ احتجاج شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف نہیں تھا بلکہ ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے پاکستانیوں کے حامیوں کی جانب سے اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پولیس افسر بی رمیش (B Ramesh) نے کارروائی سے متعلق بتایا کہ طالبہ کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جبکہ امولیہ لیونا (Amulya Leona) کے والد نے پولیس سے شکایت کی ہے کہ واقعے کے بعد بعض افراد نے ان کے گھر میں داخل ہو کر ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی ہے، جس کے بعد انتہا پسند ہندو تنظیموں سے وابستہ کچھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ واقعے کے بعد اسد الدین اویسی (Asaduddin Owaisi)  نے کہا کہ طالبہ کو یہاں آنے کی دعوت نہیں دینی چاہیے تھی۔ ہم شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ہیں۔

ادھر طالبہ کے والد نے حالات سے خوف زدہ ہو کر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی نے جو کچھ بھی کہا وہ غلط ہے، وہ بعض مسلمانوں کے ساتھ ہو گئی ہے اور میری باتیں نہیں سن رہی۔ واضح رہے کہ مودی سرکار کی حمایت سے ہندو انتہا پسند تنظیمیں اور ان کے غنڈے بھارت بھر میں کھلے عام دہشت گردی پھیلائے ہوئے ہیں، جس کے باعث اقلیتوں سمیت ہندو بھی حق بات کہنے سے کترا رہے ہیں۔ ایک روز قبل ہی امریکا کے عالمی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بھارتی حکومت کو ہندوتوا پالیسی پر گامزن اور مسلمانوں کے خلاف قرار دیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply