ترکی خلافت عثمانیہ کے آبائواجداد کے نقش قدم پر!

ترکی خلافت عثمانیہ کے آبائواجداد کے نقش قدم پر!

ترکی خلافت عثمانیہ کے آبائواجداد کے نقش قدم پر!

نیوز ٹائم

پہلی جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والی ترک جمہوریہ ایک باشعور ریاست تھی۔ اس کے بانی کمال اتاترک، گھر میں امن، دنیا میں امن کے منتر کو پسند کرتے تھے جس کے باعث غیر ملکی مہم جوئی کو خیرباد کہہ دیا گیا۔ وہ علاقے جن کے انتظامی امور کبھی استنبول کے ہاتھ میں ہوا کرتے تھے اور بعد میں ترک عوام کیلئے پسماندہ اور اجنبی ہو گئے، آج وہی ترکی خلافت عثمانیہ کے آبائواجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی فوجیں دوسرے ممالک لیبیا، شام، عراق اور حتی کہ قطر میں بھیج رہا ہے جبکہ قطر، صومالیہ اور سوڈان میں فوجی اڈے بھی قائم کر دیئے ہیں۔

ترکی کی یہ نئی فوجی مہم اس کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے جس کے تحت ترکی مشرقی وسطی سے متعلق معاملات میں ایک اہم کردار ادا کرے گا اور ترکی کی یہ حکمت عملی اس وقت سامنے آئی ہے جب حالیہ دنوں میں مشرقی وسطی میں امریکا کو نظریاتی اور عملی طور پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جنوری میں  ترک پارلیمنٹ نے لیبیا میں جنرل خلیفہ ہفتار Khalifa Haftar  کے خلاف اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ کی مدد کیلئے اپنی افواج بھیجنے کی منظوری دی تھی جو کہ ترک افواج کا 1912ء میں خطے سے عثمانیہ خلافت کے انخلا کے بعد لیبیا میں داخل ہونے کا پہلا موقع ہے۔

شام کے صوبہ ادلب میں ترک فوجیوں کا تازہ ترین حملہ،جس میں صدر بشار الاسد کی افواج کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، محض شمالی شام میں ہونے والی متعدد کارروائیوں کا ایک حصہ ہے لیکن اس حملے نے ترکی کو کرد جنگجوئوں کے برعکس براہ راست شام کی ریاست کے خلاف لا کھڑا کیا ہے۔  مگر یہی کرد جن کے خلاف ترکی شام میں سرگرم عمل ہے، عراق اور قطر میں ترک افواج ان کی مدد کو پہنچی جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ ترک کا موقف مختلف ریاستوں کے معاملے میں ایک دوسرے سے الگ ہے اور ایک خاص ایجنڈا ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ لیبیا میں جی این اے کو اتحادیوں کی کمی ہے لیکن قطر اور ترکی نے مشرق وسطی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی اسلام خلاف پالیسیوں کے ردعمل میں اپنی مدد کی پیشکش کی  اور یہ تصادم اگر ایک طرف گلف کارپوریشن کونسل کی ریاستوں کی جانب سے قطر کا بائیکاٹ کیے جانے کا سبب بنا  تو دوسری طرف قطر میں ترکی کو اپنا بیس قائم کرنے کا دعوت نامہ بھی تھا۔

سن 2016 ء میں عراق میں بشیقا اڈے (Bishkek base)  پر ترک فوجیوں کو مدعو کرنا عراقی ریاست کے اندر اقتدار کی خواہاں مختلف طاقتوں کی جدوجہد کا نتیجہ تھا جس کے تحت کرد علاقائی رہنما مسعود بارزانی (Masoud Barzani)  شیعہ اکثریتی اور بغدادی حکومت پر اثر انداز ایران کے خلاف فائدہ اٹھانے کے لئے ترکوں کے ساتھ اپنا اتحاد بڑھا رہے ہیں۔ ترکی کی غیر ملکی مہمات کی وجوہات جو بھی ہوں مگر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی حکومت نے یوکرائن اور شام میں روسی اقدام کی کامیابی اور استثنی کی وجہ سے اس بات کا حساب لگایا ہے کہ زمین پر اپنے وسیع اختیارات قائم کرنا آپ کو جغرافیائی سیاسی لحاظ سے سبقت دیتا ہے اور کم رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں ترکی غیر ملکی مہم جوئی کے بارے میں بہت محتاط تھا کیونکہ اسے خودمختار ریاستوں کے ساتھ تنازعات کا خطرہ تھا لیکن آج کے مشرق وسطی کے کئی خطوں میں متعدد ریاستیں یا تو ناکام ہیں یا ناکام ہو رہی ہیں۔ لیبیا، شام اور عراق میں اختیارات کی رسہ کشی جاری ہے اور حملہ آوروں کے بھلے بہت محدود مقاصد ہوں لیکن پھر بھی وہ کارگر ضرور ہیں۔

قطع نظر ترکی کی نیشنل ایکشن پارٹی (ایم ایچ پی) کے رہنما ڈیولیٹ باسیلی (Devlet Bahçeli) کے دمشق حاصل کرنے کے مطالبے کے، ترکی کبھی بھی کسی ریاست پر قابو پانے کا خواہش مند نہیں رہا۔ اس نے اپنے تمام تر حملوں کے مقاصد کو سختی سے محدود کیا ہے۔ اس کا واحد مقصد وسیع تنازعات میں اپنے آپ کو ایک بہتر اور دفاعی پوزیشن میں رکھنا ہے۔ فرانس، جو کہ لیبیا میں جنرل ہفتار (khalifa haftar)  کا حمایتی ہے، نے طرابلس میں ترکی کی مداخلت پر تنقید کی لیکن آج کے مشرق وسطی میں اس طرح کی تنقید بے معنی ہے۔ کوئی بھی ریاست ایسی سپر پاور کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کھڑی ہو سکتی ہے جو امن کی ضمانت نہ دیتی ہو۔

ترکی کے دشمن اپنی حد سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے دکھائی دے سکتے ہیں لیکن دشمنوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ماضی میں کتنے طاقتور رہے ہیں۔ ریاستیں کمزور ہیں، طاقتیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہیں۔ دشمن خطے میں ترکی کی کارروائیوں کو ناپسند کر سکتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ہر ایک نئی چال چل رہا ہے۔ اگر آپ کسی بھی مخصوص خطے، تنازعات کا حصہ یا توانائی اور وسائل کی تقسیم کی میز پر رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی طاقت اور موجودگی کو محسوس کروانا پڑے گا۔ پھر آپ کو کرسی کی پیشکش کی جائے گی۔

No comments.

Leave a Reply