نواز شریف اور چودھری نثار ملاقات؟

سینئر سیاستدان چوہدری نثار علی خان اور سابق وزیر اعظم  نواز شریف

سینئر سیاستدان چوہدری نثار علی خان اور سابق وزیر اعظم نواز شریف

نیوز ٹائم

سینئر سیاستدان چوہدری نثار علی خان اپنی سیاسی زندگی میں کبھی شکست کے نام سے آشنا نہیں تھے 1985ء سے لے کر 2013ء تک مسلسل قومی اسمبلی کے رکن منتخب والے سیاستدان کو 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں پہلی بار قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے آئوٹ  تو کر دیا گیا لیکن وہ پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن انہوں نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا وہ پچھلے 34 سال سے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں ملکی سیاست میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) پر سرد، گرم  موسم آیا لیکن انہوں نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نہیں چھوڑا وہ مسلم لیگ (ن) چھوڑنے تک نواز شریف کے وفادار رہے ہیں لیکن اب ان کے نواز شریف سے راستے جدا ہو گئے ہیں۔

 چوہدری نثار علی خان بظاہر گوشہ نشینی  کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور عملی سیاست سے الگ تھلک ہو گئے ہیں، ان کی یہ خاموشی  کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے وہ اس وقت ملکی سیاست پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، ان کا شمار ملک کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو دیوار کی دوسری طرف دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ملکی سیاست پر بہت کم لب کشائی کرتے ہیں لیکن جب کوئی بات کرتے ہیں تو وہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی شہ سرخیاں  بنتی ہے۔ انہوں نے جہاں اپنے سیاسی قبیلے سے رابطے منقطع کر رکھے ہیں وہاں وہ نہ ہی مسلم لیگ (ن) کے کسی رہنما کو ملاقات کے لئے وقت دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بڑے بڑے رہنمائوں کی جانب سے ملاقات کے لئے موصول ہونے والے پیغامات کا کوئی جواب نہیں دیتے۔  اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب سے ان کا مسلم لیگ (ن) سے ناطہ ٹوٹا ہے انہوں نے پھر اس طرف دیکھا ہی نہیں کئی مسلم لیگی رہنمائوں نے میری وساطت سے مسلم لیگ(ن) میں واپسی پر آمادہ کرنے کے پیغامات دئیے ہیں لیکن وہ اس مسلم لیگ (ن) کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں جس کو انہوں نے ایک تناور درخت بنایا ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی خاموشی ہی ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں افواہوں کو جنم دے رہی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران کبھی ان کی مسلم لیگ (ن) میں واپسی کی افواہ گردش کرتی ہے کبھی ان کو پنجاب کا وزیر اعلی بنا دیا جاتا ہے اور کبھی ان کی میاں نواز شریف سے ملاقات کی قیاس آرائی کی جاتی ہے۔

کبھی مسلم لیگ (ن) کی سیاست سے ناواقف صحافی دور کی کوڑی لے آتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان ان قصے کہانیوں  کی تردیدے کرتے کرتے تھک گئے ہیں ان قیاس آرائیوں اور افواہوں کا سلسلہ تھم نہیں رہا یہ قیاس آرائیاں وہ صحافی کرتے ہیں جن کی میاں نواز شریف تک رسائی ہے اور نہ ہی چوہدری نثار علی خان اس قبیل کے لوگوں سے ملنا پسند کرتے ہیں یہی وجہ اب تک ان کے بارے میں کی جانے والی تمام قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئی ہیں۔ چوہدری نثار علی خان سے پچھلے تین، چار عشروں سے دوستانہ تعلق ہے۔ جتنا میں چوہدری نثار علی خان کی سیاست کو سمجھتا ہوں شائد ہی کوئی اور ان کی سیاست کے بارے میں کوئی دعوے سے بات کر سکتا ہو چوہدری نثار علی خان گزشتہ ہفتے نجی دورے پر لندن گئے تو ایک بار پھر افواہ آنے لگی کہ وہ نواز شریف سے ملنے گئے ہیں۔

اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف بھی اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں ہیں جبکہ ان کے بھائی میاں شہباز شریف نے بھی لندن میں ڈیرے  ڈال رکھے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے جوں ہی چوہدری نثار علی نے گوروں  کی سرزمین پر قدم رکھا، چوہدری نثار علی خان کی میاں نواز شریف سے ملاقات کرانے اور نواز شریف کے انکار کی خبریں گھڑنے والے صحافی متحرک ہو گئے حالانکہ چوہدری نثار علی خان کے شیڈول میں کوئی سیاسی ملاقات شامل ہے ہی نہیں۔ چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ (ن) میں واپس آ رہے ہیں اور نہ ہی ان کی نواز شریف سے کوئی ملاقات ہو گی۔ برطانیہ میں صرف ان کا سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار سے رابطہ رہتا ہے جو پچھلے دو سال سے لندن میں بوجوہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان، میاں نواز شریف کے بارے میں آن دی ریکارڈ  کوئی بات کہنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی میاں نواز شریف اپنی زبان کھول رہے ہیں۔ جب میں نے میاں نواز شریف سے چوہدری نثار علی خان سے ناراضگی کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ اس موضوع پر پھر کسی وقت بات کروں گا  جبکہ چوہدری نثار علی خان بھی کوئی بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کا دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا کوئی امکان نہیں۔ چوہدری نثار علی خان کی اسحق ڈار اور شہباز شریف کے ساتھ طویل رفاقت ضرور ہے لیکن پارٹی سے نکل جانے کے بعد ان کا مسلم لیگ (ن) کے کسی بڑے رہنما سے کوئی رابطہ نہیں۔

چوہدری نثار علی خان نے جولائی 2018 ء  کے انتخابات سے قبل ہی نواز شریف سے 34 سالہ رفاقت ختم کر دی تھی آخری مرتبہ انہوں نے لندن میں بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں شرکت کی۔ تاہم وہ تعزیت کے لئے جاتی امرا  گئے اور نہ ہی انہوں نواز شریف کی عیادت کی سیاسی حلقوں میں اسحق ڈار، شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ملاقات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا رہا۔ چوہدری نثار علی خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی رکن تو منتخب ہو گئے ہیں لیکن انہوں نے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا۔ پچھلے چند ماہ سے چوہدری نثار علی خان کو تخت لاہور  پر بٹھانے کی ایک تھیوری پر کام ہوتا رہا لیکن سیاسی حلقوں میں یہ سوال موضوع گفتگو رہا کہ ایک نشست رکھنے والا سیاستدان تخت لاہور پر کس طرح براجمان ہو سکتا ہے؟ لیکن چوہدری نثار علی خان نے پیش کی جانے والی وزارت اعلی کو محض اس لئے مسترد کر دیا کہ وہ پنجاب اسمبلی میں لوٹا ہونے کا طعنہ سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اگر  گھوڑا  تیار ہوتا تو چوہدری نثار علی خان کو تخت لاہور پر بٹھانے کی خواہشمند قوتوں کے منصوبہ پر عملدرآمد کے سامنے کوئی سیاسی قوت مزاحم نہ ہوتی۔ اسکیم نمبر ایک کے تحت انہیں پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت کی قیادت سنبھالنا تھی جس کے لئے وہ تیار نہیں ہوئے۔ اس اسکیم میں وزارت اعلی کے منصب کے خواہشمند افراد کو طاقتور لوگوں کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑتا۔ دوسری اسکیم کے تحت پنجاب اسمبلی میں سب کو ہی چوہدری نثار علی خان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا کر دیا جاتا ۔

ایک اور اسکیم بھی بنائی گئی کہ ان ہائوس  تبدیلی کے نتیجے میں چوہدری نثار علی خان کو مسلم لیگ(ن) کے کندھوں پر سوار ہو کر تخت لاہور پر بٹھا دیا جاتا لیکن اس اسکیم کے عملدرآمد میں ان کی انا آڑے آ گئی انہوں نے بھلے وقتوں بیمار نواز شریف کی عیادت کی اور نہ ہی ان کی اہلیہ کلثوم نواز کی وفات پر ان سے تعزیت کی۔ وہ اقتدار کے حصول کے لئے کیونکر نواز شریف کے پاس جا سکتے تھے بہر حال ملکی سیاست کے نئے سیٹ اپ میں میاں شہباز شریف کی کوئی گنجائش بن گئی تو اس اسکرپٹ کے مطابق چوہدری نثارعلی خان کے لئے پنجاب میں کوئی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں جس کے تحت کسی اسمبلی کے رکن کو مقررہ مدت میںحلف لینے یا استعفی دینے کا پابند بنایا گیا ہو، اس لئے تاحال چوہدری نثار علی خان نے حلف اٹھایا ہے اور نہ ہی استعفیٰ دیا۔

وزیر اعظم عمران خان عثمان بزدار کی پشت پر کھڑے ہیں اس کے باوجود پنجاب میں نیا انتظامی سربراہ لائے جانے کی افواہ ایک منصوبہ کے تحت گردش کرتی رہتی ہے۔ چوہدری نثار علی خان اس منصب کے حصول کی دوڑ میں شریک نہیں عمران خان سے ان کی دوستی چار عشروں پر محیط ہے لیکن وہ ان کے سیاسی ساتھی بننے پر تیار نہیں۔ میرا چوہدری نثار علی خان سے مسلسل رابطہ رہتا ہے اور ان سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں ان کا اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ بھی ہے اور چیدہ چیدہ سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کرتے رہتے ہیں سردست وہ سیاسی امور پر محتاط انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تمام آپشن اوپن رکھے ہیں وہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بنیں گے سیاسی دکان کی منڈھیر پر بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں،  وہ تحریک انصاف میں شامل ہونے کی دعوت دینے والوںسے یہ سوال کرتے ہیں اگر میں تحریک انصاف میں شامل ہو جائوں تو سٹیج پر میری موجودگی میں عمران خان شریف خاندان کو لعن طعن کر رہے ہوں تو بتائیں میں وہاں کیسا لگوں گا؟۔ چوہدری نثار علی خان یہ بات برملا کہتے ہیں کہ پچھلے ڈیڑھ، دو سال میں ملک کو بند گلی کی طرف دھکیل دیا گیاہے  ہر ادارہ بند گلی میں کھڑا نظر آتا ہے وہ اپنے اصولوں پر کوئی کمپرومائز کرنے کے لئے تیار نہیں۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جب سے مسلم لیگ (ن) نے اپنے تاریخی بیانیہ پر یوٹرن لیا ہے۔ مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ ان کے پاس جا کر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ جو بات آپ نے دو سال قبل مسلم لیگ (ن) کی اعلی قیادت کو سمجھانے کی کوشش کی وہ آج زمینی حقائق  نے سمجھا دی ہے۔ چوہدری نثار علی خان طاقتور  لوگوں سے سیاستدانوں کی ہونے والی ملاقاتوں میں طے پانے والے امور سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان ہائوس  تبدیلی کی بات محض شوشہ نہیں یہ ایک سنجیدہ موو ہے۔ چوہدری نثار علی خان ایک جہاندیدہ سیاستدان ہیں پچھلے ڈیڑھ سال سے چپ کا روزہ  رکھا ہوا ہے مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب انہوں نے چپ کا روزہ توڑا تو یقیناً ملکی سیاست میں بھونچال  آ جائے گا میں نے بارہا ان کو ان رازوں سے پردہ اٹھانے کا کہا ہے جو ان کے سینے میں محفوظ ہیں،  لیکن وہ ہر بار طرح دے جاتے ہیں پورے ملک کی نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں کہ  سیاسی کھلاڑی کس پوزیشن پر کھیلے گا؟

چوہدری نثار علی خان جس بیانیہ کی وجہ سے ٹھہرے ہوئے ہیں آج اسی بیانیہ  کو اپنانے پر مسلم لیگیوں کو چوہدری نثار علی خان سے باجماعت معافی مانگنے کا کہا جا رہا ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے عام انتخابات سے قبل برملا یہ بات کہی تھی۔ مسلم لیگ کا کوئی نثار گروپ نہیں بنے گا، وہ سیاست سے دلبرداشتہ ہو کر اسے خیرباد کہنا چاہتے تھے لیکن سینئر مسلم لیگی رہنمائوں نے انہیں میدان سیاست چھوڑنے سے روک دیا۔ 24فروری 2020ء کو میاں نواز شریف کے دل کے آپریشن کا امکان ہے چوہدری نثار علی خان نے بھی 25 فروری 2020ء کے بعد پاکستان واپس آنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ میرا چوہدری نثار علی خان اور سینیٹر محمد اسحق ڈار سے لندن میں رابطہ ہے انہوں نے  نثار، نواز ملاقات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ایسی کوئی کوشش بھی نہیں کی جا رہی۔

No comments.

Leave a Reply