طالبان سے مذاکرات کیلئے افغان حکومتی 21 رکنی وفد میں 5 خواتین بھی شامل

طالبان حکومت کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات سے قبل 5،000 قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا تھا

طالبان حکومت کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات سے قبل 5،000 قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا تھا

کابل ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغان حکومت نے طالبان سے انٹرا افغان مذاکرات کے لیے 5 خواتین سمیت 21 رکنی وفد کو حتمی شکل دے دی۔ مذاکراتی ٹیم کی قیادت سابق انٹلی جنس چیف معصوم ستانکزئی (Masoom Stanekzai) کریں گے جو ایک پشتون کی حیثیت سے طالبان کے ساتھ قبائلی شناخت رکھتے ہیں۔ اگرچہ فوری طور پر ابھی تک کوئی خبر نہیں مل سکی کہ آیا سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے وفد کی تائید کی ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ وفد میں باتور دوستم (Batur Dostum) بھی شامل ہیں جن کے والد عبد الرشید دوستم (Abdul Rashid Dostum) سابقہ جنگجو اور عبداللہ کے حلیف تھے۔

افغانستان کی وزارت امن نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی نے وفد کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کیا اور ان پر زور دیا کہ بات چیت کے تمام مراحل میں ملک کے بہترین مفاد، افغان عوام کی مشترکہ اقدار اور متحدہ افغانستان کے اصولی موقف کو معطع نظر رکھیں۔ وفد میں شامل ان 5 خواتین میں حکومت کی اعلی امن کونسل کی نائب رہنما حبیبہ سرابی (Habiba Sarabi) بھی شامل ہیں جو ہزارہ کمیونٹی سے اور شیعہ ہیں۔ علاوہ ازیں وفد میں ایک خاتون مندوب فوزیہ کوفی (Fawzia Koofi) بھی ہیں جو تاجک نسل ہیں اور عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن ہیں اور طالبان کے خلاف سخت موقف رکھتی ہیں۔ تاہم یہ معلوم نہیں کہ انٹرا افغان مذاکرات کب اور کہاں شروع ہوں گے۔ دوسری جانب کورونا وائرس وبائی بیماری کے پیش نظر عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے مذاکرات کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے کہا تھا کہ ان کے عہدیدار براہ راست طالبان سے ملاقات کریں گے اور بڑے پیمانے پر قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت کریں گے  جس میں 5000 طالبان قیدیوں کی رہائی اور حکومت کی طرف سے 1000 ہوں گے۔ خیال رہے کہ قیدیوں کے تبادلے سے متعلق امریکا اور طالبان کا معاہدہ ہو چکا ہے جس پر افغان صدر اشرف غنی دستخط کنندہ نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کے رہنمائوں افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے مابین متوازی حکومت کی تشکیل سازی میں عدم اتفاق پر ایک ارب ڈالر کی امداد میں کمی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ امریکا نے مزید دھمکی دی ہے کہ اگر ان میں اتفاق نہ ہوا تو ہر قسم کے تعاون میں کمی کر دی جائے گی۔

امریکا اور طالبان کا معاہدہ:

واضح رہے کہ افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔ معاہدے کے مطابق امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیر ملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکدار، شہری، نجی سیکیورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا کو یقینی بنائیں گے۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے طے پا گیا اس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں 8600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان طے پاجانے والے معاہدے پر جہاں یورپی یونین اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے خوشی کا اظہار کیا ہے،  وہیں کچھ امریکی سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کو اس پر تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں تاہم امریکی صدر نے امن معاہدے پر ہونے والی تنقید کو بھی غیر اہم قرار دیا ہے۔ امن معاہدہ طے پانے کے چند گھنٹوں بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس پر اعلی عہدیداروں کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور افغان طالبان کی اعلی قیادت سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے کے تحت امریکا اور اس کے اتحادی بیک وقت افغانستان سے 13 ہزار سے ساڑھے 8 ہزار افواج کو فوری طور پر واپس بلا سکتے ہیں  اور معاہدہ انہیں یہ بھی اختیار دیتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ واپس فوج کو افغانستان میں تعینات بھی کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان طے پانے والا معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔ ان مرکزی نکات کا پہلے حصے کے مطابق طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جن سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہو گا۔ معاہدے کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائے گا۔ معاہدے کے تیسرے نکتے کے مطابق طالبان 10 مارچ 2020 ء سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ اسی طرح معاہدے کے چوتھے اور آخری مرکزی نکتے میں کہا گیا ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس افغان طالبان کے رہنمائوں اور ڈونلڈ ٹرمپ میں امریکی ریاست میری لینڈ میں واقع کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات طے تھی  تاہم قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے استعفی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ ملاقات منسوخ کر دی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان رہنمائوں کے درمیان ملاقات منسوخ ہونے کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہوئے تھے  تاہم پاکستان اور افغانستان کی حکومت کی کوششوں سے امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے طے پا گیا۔

No comments.

Leave a Reply