ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو قید کے 17 سال مکمل

ڈاکٹر عافیہ عدالت میں جرم ثابت کیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی

ڈاکٹر عافیہ عدالت میں جرم ثابت کیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی

نیوز ٹائم

قید کے تذکرے کے ساتھ ہی سب سے پہلا خیال جو ذہن میں آتا ہے، وہ امریکا کی قید میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہے۔ قید کا یہ عرصہ زندگی کا نہیں، ایک کمزور بیمار قیدی کے روز جینے روز مرنے کا 17 سالہ 30 مارچ 2003 تا 2020 ء طویل اذیت ناک سفر ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی قومی منظرنامے کے ہر اہم موڑ پر سامنے آنے والا سگنل ہے۔ حالیہ امریکا طالبان امن معاہدہ ہو یا موجودہ وبا کورونا کی ہلاکت خیزیاں، عافیہ ایک بار پھر موضوع بحث ہیں۔ یاد رہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکا کی جامعات سے اعلی تعلیم یافتہ پاکستانی شہری ہیں۔ تعلیم کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی ان کا خواب تھا۔  ان کے ساتھ پیش آنے والے المناک واقعات تعبیر کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ انہیں 30 مارچ 2003 ء کو پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کراچی سے اغوا کر کے لاپتا کیا گیا۔ اکتوبر 2008 ء میں برطانوی نومسلم صحافی ایوون ریڈلے (Yvonne Ridley) نے افغانستان میں امریکی مرکز بگرام ایئربیس کی جیل میں موجود قیدی نمبر 650 کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف عالمی میڈیا کے سامنے کیا۔ ان کے ہمراہ تحریکِ انصاف کے سربراہ کی حیثیت سے عمران خان بھی تھے۔ ایوون ریڈلے (Yvonne Ridley) نے عافیہ پر امریکی فوجیوں کے شرمناک اور دل دہلا دینے والے مظالم کے انکشاف کے ساتھ ان کی رہائی کی اپیل بھی کی۔

ڈاکٹر عافیہ کو 2009 ء میں امریکی قیدیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کے الزام میں افغانستان سے امریکا منتقل کیا گیا۔ قتل کی کوشش کا نام نہاد مقدمہ چلا کر عدالت میں جرم ثابت کیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کو سیاسی قیدی کہا گیا۔ اس لحاظ سے ان کے کیس کو سیاسی طور پر ڈیل کیا جانا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں یکے بعد دیگر آتی جاتی رہیں، لیکن کسی حکومت کے دور میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی عملی کوششوں کا کوئی ذکر نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو قوم کی بیٹی سب نے ہی کہا، رہائی کے وعدے بھی کیے۔ لیکن یہ وعدے اور دعوے زبانوں اور میڈیا کی اسکرین سے قانونی و عملی شکل میں نہ ڈھل سکے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی نے 21 اگست 2008 ء کو پہلی قرارداد منظور کی۔ اس وقت شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ تھے۔ سینیٹ نے عافیہ کی رہائی کے لیے 15 نومبر 2018 ء کو قرارداد منظور کی۔  تب پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تھے۔ امریکا اور طالبان کے مابین حالیہ دوحہ امن معاہدے کے موقعے پر بھی شاہ صاحب وہاں موجود تھے اور معاہدے کا کریڈٹ عمران خان کو دے رہے تھے۔ یہ عمران خان بھی وہی ہیں جنہوں نے 2008 ء میں سب سے پہلے عافیہ کے لیے آواز بلند کی تھی۔  2018 میں عافیہ رہائی کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنا کر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کی کوششوں کا وعدہ کیا تھا۔ وہ عمران خان آج پاکستان کے وزیرِ اعظم ہیں۔

منظرنامہ تبدیل ہوا دوحہ امن معاہدے کے ضمن میں طالبان لابی کی بھرپور فتح سامنے ہے۔ طالبان عافیہ کو اپنے قیدیوں میں پہلے ہی شمار کر کے ان کی رہائی کی بات کرتے رہے ہیں۔ پاکستان اور اس کے اعلی حکام نے دوحہ معاہدے میں جس طرح ہر ممکن معاونت بہم پہنچائی، وہ عافیہ کیس کے سلسلے میں طالبان کی معاونت کیوں نہیں لے سکتے؟ گزشتہ دنوں پاکستان کے ماہرِ قانون دائود غزنوی نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں اپنی کتاب عافیہ ان ہرڈ (Aafia unheard) میں ان کی رہائی سے متعلق قانونی نکات اور راستے بھی بیان کیے ہیں۔ ایک راستہ یہ بتایا گیا کہ (مسلسل ٹارچر کے باعث) عافیہ صدیقی کا ذہنی توازن اور طبیعت ٹھیک نہیں لہذا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہیں پاکستان واپس لایا جا سکتا ہے۔ یہ خالص قانون پر مبنی ایک راستہ ہے۔ اس صورتِ حال میں پاکستان بغیر کسی سودے بازی کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

تازہ گمبھیر صورتِ حال کورونا وائرس کی ہے۔ اس خدشے کے پیشِ نظر ایران اور امریکا جیسے دشمن ممالک نے بھی ایک دوسرے کے ملکوں سے اپنے اپنے قیدیوں کی حفاظت اور رہائی کا فوری مطالبہ کر دیا ہے۔ سی این این کے مطابق امریکی جیلوں میں کورونا پھیل گیا ہے۔ حفاظت و احتیاط کی صورتِ حال بہت پریشان کن ہے۔ کئی اموات متوقع ہیں۔ پاکستان میں بھی قیدیوں کی مشروط رہائی کا کام شروع ہو گیا ہے۔ ایسے میں قومی سطح پر ڈاکٹر عافیہ اور ان جیسے دیگر مظلوم قیدیوں کی واپسی کی کوشش حکومت کی اہم سفارتی کامیابی ہو گی۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے اس سے زیادہ بہتر حالات شاید کبھی نہیں رہے وزیرِ خارجہ اور وزیرِ اعظم، دونوں ہی ابتدا سے اب تک عافیہ کیس کے عینی شاہدین ہیں اور عمران خان تو رہائی کے وعدے کے مقروض بھی ہیں!

عمران خان کا وزیر اعظم بننے سے قبل کہنا تھا: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا غیروں کی قید میں رہنا، وقت کے حکمرانوں کے لیے انتہائی شرمناک ہے۔ اگر ہم عافیہ کو رہا نہ کروا سکے تو یہ بدترین مایوسی والی بات ہو گی۔ عمران خان صاحب! آج وقت نے آپ کو حکمران بنا دیا، آپ کے پاس اختیار آ گیا ہے۔ قومی غیرت پر لگے شرمندگی کے اس ناسور کو ختم کرنے کب اٹھیں گے؟ شاید کہ آپ کا یہ کارنامہ ملک و قوم کو مایوسی کی کورونا کی وبا سے نجات دلا سکے!

No comments.

Leave a Reply