ٹرمپ تیل کی عالمی پیداوار میں ڈیڑھ کروڑ بیرل تک کٹوتی کے خواہاں

سعودی عرب نے غیر متوقع طور پر تیل برآمد کرنے والے ممالک کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے

سعودی عرب نے غیر متوقع طور پر تیل برآمد کرنے والے ممالک کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

سعودی عرب نے غیر متوقع طور پر تیل برآمد کرنے والے ممالک کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تیل کی عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں استحکام کے لیے پیداوار میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ بیرل تک یومیہ کٹوتی پر زور دیا ہے۔ دنیا بھر میں کروناوائرس کی وبا پھیلنے کے بعد تیل کی مانگ اور کھپت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت میں نمایاں کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس دوران میں تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک اور روس کی قیادت میں غیر اوپیک ممالک کے درمیان تیل کی پیداوار میں کٹوتی کا سمجھوتا ٹوٹ گیا ہے  اور روس نے یکطرفہ طور پر اوپیک پلس سمجھوتے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے جمعرات کو ایک سرکاری بیان جاری کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ  سعودی عرب نے اوپیک پلس اور دوسرے ممالک کے گروپ کا ایک فوری اجلاس طلب کیا ہے تاکہ ایک شفاف ڈیل کے ذریعے تیل کی مارکیٹ میں توازن بحال کیا جا سکے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ براعظم امریکا کے تیل پیدا کرنے والے ممالک کینیڈا، میکسیکو اور گروپ 20 میں شامل دوسرے ممالک اپنی پیداوار میں کمی کر دیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو پہلے ایک ٹویٹ میں کہا کہ میں نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔ انھوں نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے بات چیت کی ہے۔ مجھے امید اور توقع ہے کہ وہ تیل کی پیداوار میں ایک کروڑ بیرل کی کمی پر آمادہ ہو جائیں گے۔ پھر وہ اس سے زیادہ پیداوار کی کٹوتی پر بھی تیار ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ تیل اور گیس کی صنعت کے لیے نیک شگون ہو گا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا ہے کہ پیداوار میں ڈیڑھ کروڑ بیرل یومیہ تک کمی ہو سکتی ہے۔ یہ ہر کسی کے لیے ایک اچھی خبر ہو گی۔ تاہم بعد میں کریملن نے اس اطلاع کی تردید کی ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے کوئی رابطہ کیا ہے۔ انٹر فیکس نیوز ایجنسی کے مطابق صدر پیوٹن کے ترجمان دمتری پیسکوف (Dmitry Peskov) نے کہا کہ نہیں، ان میں  کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب نے روس کے ساتھ 5 مارچ کو ویانا میں اوپیک پلس ڈیل کے خاتمے کے بعد اپنی تیل کی یومیہ پیداوار ایک کروڑ 20 لاکھ بیرل تک بڑھا دی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں نے صدر ٹرمپ کی تیل کی پیداوار میں ڈیڑھ کروڑ بیرل یومیہ تک کٹوتی کے بارے میں تجویز پر عملدرآمد کے حوالے سے اپنے شکوک کا اظہار کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ تجویز غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ایک مشاورتی فرم قمر انرجی (Qamar Energy) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر رابن ملز (Robin Mills) نے کہا ہے کہ مجھے کٹوتی کے حجم کے بارے میں شک ہے۔ ایک سے ڈیڑھ کروڑ بیرل یومیہ اوپیک کی کل پیداوار کا نصف ہے۔ اوپیک کے رکن ممالک کی مارچ میں یومیہ پیداوار 2  کروڑ 80 لاکھ بیرل تھی۔

واضح رہے کہ تیل کی عالمی مارکیٹوں میں قیمتوں میں نمایاں کمی سے امریکا کی تیل فرمیں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان کی پیداواری لاگت سب سے زیادہ ہے۔ امریکی کمپنیاں عالمی مارکیٹ میں تیل کی فی بیرل قیمت 43 سے 55 ڈالر کے درمیان برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں سعودی آرامکو کی پیداواری لاگت کہیں کم ہے اور اس کی فی بیرل پیداواری لاگت صرف تین ڈالر ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹس میں یہ واضح نہیں کیا ہے کہ سعودی عرب اور روس کے علاوہ اور کس ملک کو اپنی یومیہ پیداوار میں کٹوتی کرنی چاہیے لیکن اس معاملہ میں سعودی عرب کا موقف بڑا واضح ہے۔ اس کا کہنا ہے پیداوار میں کٹوتی منصفانہ ہونی چاہیے اور سب ممالک کو اپنے پیداواری حجم کے مطابق کمی کرنی چاہیے۔

No comments.

Leave a Reply