تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے مشرق وسطی کی معیشتوں کو بڑا دھچکا

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطابق تمام خلیجی عرب تیل برآمد کرنے والے ممالک کی معیشتیں رواں سال سکڑ جائیں گی

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطابق تمام خلیجی عرب تیل برآمد کرنے والے ممالک کی معیشتیں رواں سال سکڑ جائیں گی

بغداد ۔۔۔ نیوز ٹائم

عراق نے لاکھوں سرکاری ملازمین کے لیے سماجی فوائد کو کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اس کے ساتھ ہی سعودی عرب میں بڑے منصوبے تاخیر کا شکار ہونے کا امکان ہے جبکہ مصر اور لبنان کے خلیج میں کام کرنے والے ورکرز کی جانب سے کم ڈالرز بھیجے جانے کی وجہ سے دونوں ممالک کو بڑے معاشی نقصان کا سامنا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق کوروناوائرس وبا کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں کمی سے تیل پر انحصار کرنے والے مشرق وسطی کے ممالک میں معاشی بحران پیدا ہو گیا ہے۔

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطابق تمام خلیجی عرب تیل برآمد کرنے والے ممالک کی معیشتیں رواں سال سکڑ جائیں گی جبکہ عراق میں اس کا اندازہ 5 فیصد تک لگایا گیا ہے۔ جہاں چند خلیجی ممالک غیر ملکی کرنسی کے ذخائر پر انحصار کرنے کے قابل ہیں وہیں عراق جیسی صورتحال کہیں نہیں دیکھی جا سکتی جہاں تیل کی فروخت ہی سے ریاست کے 90 فیصد بجٹ کو فنڈنگ ہوتی ہے۔ عراق میں گزشتہ مہینوں میں کمزور معیشت اور کرپشن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے دیکھے گئے تھے اور یہ صورتحال دوبارہ سامنے آ سکتی ہے۔ اخراجات میں کمی سے پہلے سے ہی کوروناوائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں سے مشکلات کا سامنا کرنے والی عوام کے پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عراقی دارالحکومت کے تحریر چوک پر مظاہرین اب بھی موجود ہیں جو اپنی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ عراقی تجزیہ کار سجاد جیاد (Sajad Jiyad)  کا کہنا تھا کہ موسم سرما میں داخل ہوتے ہی حکومت کے لیے بڑے طوفان کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔

تیل کی قیمت عالمی منڈی میں اس وقت 20 ڈالر فی بیرل ہے جو کبھی کبھی مزید کم بھی ہو جاتی ہے۔ اوپیک کے تیل کی مارکیٹ کو مستحکم بنانے کے لیے 23 فیصد تک پیداوار کو کم کرنے کے معاہدے تک مارکیٹ کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مئی اور جون کا مہینہ سب سے زیادہ مشکل ہو گا جب تیل کو ذخیرہ کرنے کی سہولت میسر نہیں ہو گی اور ممالک تیل کو مارکیٹ میں پیش کرنے کے لیے مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ دبئی کے قمر اینرجی (Qamar Energy) کے سی ای او رابن ملز (Robin Mills) کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ اب تک کسی کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کہ ان کا بجٹ ختم ہو گیا ہو مگر ایسا نہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا، ممکن ہے کہ اس کا سب سے پہلا شکار عراق ہو۔

عراق کے 2020 ء کے بجٹ کے ڈرافٹ میں 56 ڈالر فی بیرل کے حساب سے تیل کی قیمت پر ریونیو پر انحصار کیا گیا تھا تاکہ نہایت ضروری ترقیاتی منصوبوں کو فنڈنگ کی جا سکے۔ عراقی وزیر تیل ثامر غضبان (Thamir Ghadhban) کا کہنا تھا کہ خام تیل کی برآمدات سے حاصل ہونے والا ریونیو 50 فیصد تک کم ہو گیا ہے۔ اب حکام تنخواہوں میں کمی پر بحث کر رہے ہیں۔ تین عراقی حکام کے مطابق ایک پیشکش یہ بھی ہے کہ عوامی شعبے کے ورکرز کو ان سماجی فوائد کے لیے مالی حالات بہتر ہونے تک ادائیگیاں روک دی جائیں۔ حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سوال یہ ہے کہ کتنا کم کیا جائے اور کس سے، ایک تجویز یہ بھی ہے کہ زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے افراد کی 50 فیصد تنخواہ کاٹ لی جائے۔ اس سے عراق کو لاکھوں ڈالرز بچ سکیں گے تاہم صورتحال کشیدہ ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو جائے گا۔اس کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تیل کی قیمت 20 سے 30 ڈالر فی بیرل رہی تو یہ کافی نہیں ہو گا۔

خطے کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب نے بھی 5 فیصد یا 13.3 ارب ڈالر تک کے اخراجات کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ سعودی عرب کے 500 ارب ڈالر کے غیر ملکی ذخائر میں سے مزید کمی یا اقدامات کی امید کی جا سکتی ہے۔ وبا کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور کاروبار کو نقصان سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے نئے شہروں اور میگا منصوبوں کی تعمیر ممکنہ طور پر تاخیر کا شکار ہوں گے۔ کویت میں بھی بہت زیادہ ذخائر موجود ہیں تاہم بحرین کو اس کے جی ڈی پی کے 105 فیصد سے زائد قرضوں کا سامنا ہے  جبکہ انہیں 2018 ء میں ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کے لیے اپنے پڑوسیوں سے 10 ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکج بھی موصول ہو چکا ہے۔ دیگر بڑے تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک میں نوکریوں میں کمی اور معاشی جھٹکوں کا سامنا رہے گا۔

امریکی تیل پیدا اور سروسز کمپنی نے ہزاروں ملازمین کو نوکری سے فارغ کیا اور وبا اگر یونہی جاری رہی تو مزید بڑے پیمانے پر برطرفیاں سامنے آئیں گی۔ وبا اور تیل کی قیمتوں میں کمی کا ایک اور جھٹکا مصر، اردن اور لبنان پر بھی پڑے گا جو تیل سے مالا مال عرب خلیجی ممالک میں ورکرز کے غیر ملکی کرنسی اپنے ملک بھیجنے پر انحصار کرتی ہیں۔ لبنان میں بیرون ملک سے بھیجے جانے والی رقم جی ڈی پی کا 12.5 فیصد تھی جبکہ مصر میں یہ شرح 10 فیصد تھی۔ لبنان کے ایک رہائشی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اب کیسے گزارا کریں گے، بھوک ہمارے دروازے تک پہنچ چکی ہے۔

No comments.

Leave a Reply