یمن: جنوبی علاقے کے باغیوں نے بھی خودمختاری کا اعلان کر دیا

جنوبی علاقے کے باغیوں نے بھی خودمختاری کا اعلان کر دیا

جنوبی علاقے کے باغیوں نے بھی خودمختاری کا اعلان کر دیا

صنعا ۔۔۔ نیوز ٹائم

یمن کی حکومت کے لیے بحران مزید سنگین ہو گیا ہے جہاں حوثی باغیوں کے بعد ملک کے جنوبی علاقے میں بھی باغیوں نے اتحاد اور امن معاہدے کو ختم کر کے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا جبکہ سعودی عرب کی سربراہی میں اتحادیوں نے اس اعلان کو مسترد کر دیا۔ خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سادرن ٹرانزیشنل کونسل (Southern Transitional Council)  (ایس ٹی سی)  نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہوئی ہے اور جنوبی علاقے کے معاملات کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ ایس ٹی سی نے حکومت کو امن معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اپنی خودمختار حکومت بنانے کا اعلان کر دیا جس کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق یمن کی حکومت نے اس قدم کی مذمت کی اور کہا کہ جنوب میں آزادی کے لیے کوششیں کرنے والے لوگ تباہ کن اور خطرناک نتائج کے ذمہ دار ہوں گے۔ سعودی عرب کی سربراہی میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑنے والے اتحاد میں دراڑ کی بڑی وجہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی جانب سے کوروناوائرس کے باعث حوثی باغیوں کے ساتھ یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا جبکہ حوثی باغیوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ یمن کی حکومت اور ایس ٹی سی کے اتحاد میں گزشتہ برس بھی سنگین اختلافات ہو گئے تھے تاہم متحدہ عرب امارات اور سعودی حکومت کی کوششوں سے ریاض میں دونوں فریقین کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا۔ ایس ٹی سی نے گزشتہ برس اگست میں یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جس کو خانہ جنگی کے اندر خانہ جنگی سے تعبیر کیا گیا تھا۔ سعودی دارالحکومت میں طے پانے والا معاہدہ جنوبی علاقے کے باغیوں کو حکومت میں برابر حصہ دینے اور فوج کی ازسرنو تنظیم میں ناکامی کے باعث جلد ہی غیر موثر ہو گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ایس ٹی سی نے اپنے بیان میں اعلان کیا تھا کہ وہ جنوبی علاقوں میں حکومت بنا رہے ہیں جس کا آغاز 25 اپریل 2020 ء کی درمیانی شب سے ہو گا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ ایک خودمختار کمیٹی کونسل کی صدارت کی جانب سے دیے گئے احکامات کی روشنی میں کام شروع کرے گی۔ عدن کے رہائشیوں کی جانب سے موصول ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ شہر میں ایس ٹی سی کی فورسز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔ باغیوں کے ذرائع کا کہنا تھا کہ انہوں نے مرکزی بینک اور عدن کی بندرگاہ سمیت حکومت کے تمام دفاتر میں چیک پوائنٹس بنا دیے ہیں۔ عدن میں شہر میں ایس ٹی سی کے جھنڈے لگائی گاڑیوں کی لمبی قطاریں موجود ہیں لیکن سیاسی حوالے سے پورے جنوبی علاقے کے معاملات مزید گھمبیر ہیں  کیونکہ دیگر شہروں نے ان کی خودمختاری کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ منسلک رہنے کا کہا ہے۔یمن کے وزیر خارجہ محمد الہادرامی (Mohammed al-Hadrami)  کا کہنا تھا کہ ایس ٹی سی کا یہ قدم گزشتہ اگست سے جاری مسلح بغاوت اور ریاض معاہدے کو مسترد کرنے کا تسلسل ہے۔

خیال رہے کہ یمن میں گزشتہ 5 برسوں کے دوران حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان لڑائی میں 10 ہزار سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ رواں ماہ کے اوائل میں حضر موت کے علاقے میں کوروناوائرس کا پہلا کیس بھی رپورٹ ہوا تھا جو جنوبی باغیوں کے زیر اثر علاقہ ہے۔ملک میں کوروناوائرس کے پھیلائو کے خدشات کے ساتھ ساتھ رواں ماہ سیلاب سے کم از کم 21 شہری ہلاک ہوئے اور عدن شہر میں کئی گھر اور سڑکیں بھی تباہ ہوئیں۔ ایس ٹی سی کو متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے جبکہ متحدہ عرب امارات بھی باغیوں کی طرح اخوان المسلمون اور یمن کی اخوان جماعت الاصلاح کے خلاف سخت موقف رکھتا ہے جس کا نمائندہ تسلیم شدہ حکومت میں شامل ہے۔

سعودی اتحاد نے خومختاری کے اعلان کو مسترد کر دیا:

یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑنے والے سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد نے جنوبی علاقے میں باغیوں کی جانب سے خودمختار حکومت کے اعلامیے کو مسترد کر دیا۔ خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اتحادیوں کا کہنا تھا کہ ایس ٹی سی کی جانب سے اسٹیٹ ایمرجنسی کے حیران کن اعلان کے بعد ہم ایک مرتبہ پھر ریاض معاہدے پر عملدرآمد پر زور دیتے ہیں۔ اتحادیوں نے اپنے بیان میں کہا کہ اتحادیوں کا مطالبہ ہے کہ تخریبی کارروائیوں کو ختم کر کے فریقین معاہدے کی طرف واپس آ جائیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس اگست میں حکومت اور ایس ٹی سی کے درمیان خونریز جھڑپین ہوئی تھیں اور ایس ٹی سی کی فورسز نے اتحادی فوج کو بے دخل کر کے عدن کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اتحادی فوج نے فروری 2015 میں اس وقت عدن میں ایک بیس قائم کر لیا تھا جب صدر عبدالربی ہادی، حوثی باغیوں کے مرکز صنعا سے نکل کر یہاں پہنچے تھے۔ یمن کے جنوبی علاقے میں قبضے کی جنگ سے سعودی اتحاد کی قلعی بھی کھول دی تھی کیونکہ سعودی عرب یمنی حکومت جبکہ متحدہ عرب امارات ایس ٹی سی کی حمایت کر رہے تھے۔ بعد ازاں ریاض میں ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا تھا جس سے یمن کی مکمل تقسیم رک گئی تھی اور یمن میں پھیلی ہوئی وسیع خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے بہتر اقدام قرار دیا گیا تھا۔تاہم اختلافات جلد ہی سامنے آ گئے جب جنوب میں غذائی اجناس کی کمی کی شکایات سامنے آئیں، کرنسی کی قدر میں گراٹ اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے فنڈز کی کمی سامنے آئی تھی۔

No comments.

Leave a Reply