آسٹریلیا نے کوروناوائرس تحقیقات پر چین کی معاشی جبر کی دھمکی کو مسترد کر دیا

آسٹریلوی وزیر خارجہ ماریسے پینے

آسٹریلوی وزیر خارجہ ماریسے پینے

سڈنی ۔۔۔ نیوز ٹائم

آسٹریلیا نے کوروناوائرس پر چین کی مخالفت کے باوجود تحقیقات جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ ہی چین کو معاشی جبر سے متعلق خبردار کر دیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا میں چینی سفارتکار چینگ جنگ یے (Cheng Jingye) نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ چینی عوام آسٹریلوی مصنوعات اور یونیورسٹیز کو نظرانداز کر سکتی ہیں۔ آسٹریلیا نے گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت کے تمام اراکین کو کوروناوائرس کی تخلیق اور پھیلائو پر خودمختار نظرثانی کرنے کا کہا تھا جبکہ چینی وزارت خارجہ نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ چینگ جنگ یے (Cheng Jingye) کا کہنا تھا کہ شاید عام عوام کہے کہ ہم آسٹریلوی وائن کیوں پیئیں یا آسٹریلوی بیف کیوں کھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ سیاح آسٹریلیا آنے سے قبل دوبارہ سوچیں۔ انہوں نے کہا کہ طالب علموں کے والدیں بھی سوچیں گے کہ کیا یہی اپنے بچوں کو بھیجنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔

واضح رہے کہ توانائی کی برآمدات کے بعد تعلیم اور سیاحت آسٹریلیا کی برآمدات کی سب سے بڑی صنعت ہے جس کی سب سے بڑی مارکیٹ چین ہے۔ آسٹریلوی وزیر خارجہ ماریسے پینے  (Marise Payne) نے اپنے بیان میں کہا کہ آسٹریلیا نے چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کوروناوائرس وبا پر خودمختار نظرثانی کا اصولی مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسے مطالبے پر معاشی جبر کی تجویز کو مسترد کرتے ہیں اور اس وقت ہمیں عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وبا کے حوالے سے ایک دیانتدار تشخیص عالمی ادارہ صحت کے کردار کو مستحکم کر دے گی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل چین نے یورپی یونین (ای یو) پر بھی دبائو ڈال چکا ہے کہ وہ اپنی ایک رپورٹ کو شائع نہ کرے،  جس میں بیجنگ پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے کوروناوائرس سے متعلق غلط معلومات پھیلائیں۔ مذکورہ رپورٹ کو چین پر کی گئی تنقید میں نرمی کرنے یا پھر تنقید کو نکال کر ایک متوازن رپورٹ کے طور پر ہفتے کے اختتام سے قبل شائع کر دیا گیا تھا کیوں برسلز نہیں چاہتا کہ کوروناوائرس کی وبا کے باعث اس کے عالمی تعلقات متاثر ہوں۔

یورپی یونین کی خاتون ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی اس طرح کے دوسرے ممالک سے اندرونی سفارتی معاملات اور مشکوک معاملات سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ روابط پر کوئی جواب نہیں دیتے۔ نیوز ویب سائیٹ پولیٹیکو نے بتایا کہ کم از کم 4 سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ مذکورہ رپورٹ کو ابتدائی طور پر 21 اپریل کو شائع کیا جانا تھا، تاہم چین کو اس کی معلومات پہنچیں تو مذکورہ رپورٹ کی اشاعت میں تاخیر ہوئی۔ یورپی یونین کے درمیان ہونے والی ایک سفارتی خط و کتابت کے مطابق چین کے ایک اعلی عہدیدار نے بیجنگ میں موجود یورپی یونین عہدیداروں سے اسی دن رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ اگر مذکورہ رپورٹ جس طرح لکھی گئی ہے، اسے ایسے ہی شائع کیا گیا تو اس سے ان کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ کی اشاعت میں تاخیر کی وجہ رپورٹ کا اندرونی جائزہ لینا تھی تاہم رائٹرز کی جانب سے حاصل کی گئی اشاعت سے قبل اور اشاعت کے بعد والی رپورٹ کے مواد میں واضح فرق پایا گیا۔خیال رہے کہ اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ وہ چین پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے۔

No comments.

Leave a Reply