مشرق وسطی کے لیے اعلان کردہ امن منصوبے پر عمل درآمد کیلئے تیار ہیں، امریکا

رواں سال 28 جنوری کو ٹرمپ نے مشرق وسطی کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم  اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا

رواں سال 28 جنوری کو ٹرمپ نے مشرق وسطی کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم اسرائیل کا ‘غیر منقسم دارالحکومت’ رہے گا

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکا نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے بڑے حصے کے الحاق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے ساتھ ہی نئی اتحادی حکومت سے فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کا بھی کہا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے حکمرانی کے لیے کیے گئے معاہدے کے بعد دوبارہ دفتر سنبھالنے پر مغربی کنارے پر الحاق کے لیے آگے بڑھنے کا عزم دہرایا تھا جس کے بارے میں فلسطینوں کا کہنا ہے کہ یہ دو ریاستی حل کا دروازہ بند کر دے گا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطی کے حوالے سے پیش کردہ منصوبے میں مغربی کنارے کے الحاق کو ہری جھنڈی دکھا دی گئی تھی۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے کہا ہے کہ جیسا کہ ہم مسلسل واضح کر چکے ہیں کہ ہم اسرائیل کی جانب سے اس خودمختاری اور اسرائیلی قوانین کا اطلاق مغربی کنارے کے علاقوں تک پھیلانے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ ترجمان نے مزید کہا کہ یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وژن کے مطابق بیان کردہ خطوط کے مطابق اسرائیلی حکومت کے فلسطینوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے رضامندی کے تناظر میں ہو گا۔

خیال رہے کہ امریکی صدر کا منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے میں یہودی آبادیوں کا الحاق کرنے اور اردن تک اپنی خودمختاری کو وسعت دینے کی اجازت دیتا ہے جسے باقی دنیا غیر قانونی سمجھتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو ایک خودمختار لیکن غیر عسکری ریاست دی جائے گی ساتھ ہی اس میں سرمایہ کاری کے وعدے بھی کیے گئے۔ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت یروشلم کا مضافاتی علاقہ ہو گا اور مقدس شہر پر اسرائیل کا مکمل اختیار ہو گا۔ ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق یہ فلسطینوں کے لیے ناقابلِ مثال اور انتہائی مفید موقع ہے۔

یاد رہے کہ فلسطینی، امریکی حکومت کو جانبدار سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کر چکے ہیں اور یورپی یونین نے بھی امریکی صدر کے منصوبے پر تنقید کی تھی کیونکہ وہ دو ریاستی حل کی ناکامی ہے۔دوسری جانب عرب لیگ، اسرائیلی الحاق کے منصوبے پر بات چیت کرنے کے لیے رواں ہفتے ورچوول اجلاس منعقد کرنے کا ادارہ رکھتی ہے جو اسرائیلی اتحادی حکومت معاہدے کے تحت جولائی میں ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ رواں سال 28 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطی کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کا ‘غیر منقسم دارالحکومت’ رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس طرح فلسطینیوں کے زیر کنٹرول علاقہ دگنا ہو جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ مشرق وسطی کے لیے امن منصوبہ 80 صفحات پر مشتمل ہے۔ امریکی صدر نے کہا تھا کہ واشنگٹن، فلسطینیوں کے نئے دارالحکومت میں ‘فخر سے’ اپنا سفارتخانہ کھولے گا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس منصوبے سے فلسطین میں 50 ارب ڈالر کی نئی تجارتی سرمایہ کاری ہو گی اور اگر سب کچھ اچھی طرح انجام پایا تو اس سے 10 لاکھ فلسطینیوں کے لیے ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔

بعد ازاں 31 جنوری کو فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو اوسلو معاہدے کے تحت سلامتی تعاون سے دستبردار ہونے کا پیغام پہنچایا تھا۔ فلسطینیوں نے امریکا کے اعلان کردہ منصوبے پر مزید ناپسندیدگی کا اظہار اور اسے مسترد کرتے ہوئے 2 فروری کو واشنگٹن اور اسرائیل سے سیکیورٹی کے امور سمیت تمام نوعیت کے تعلقات ختم کر دیے تھے۔

No comments.

Leave a Reply