کیا کورونا تیسری عالمی جنگ کا سبب بنے جا رہا ہے؟

امریکا اس کے یورپی اتحادیوں کے بعد اب آسٹریلیا نے بھی چین کے خلاف تحقیقات جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے

امریکا اس کے یورپی اتحادیوں کے بعد اب آسٹریلیا نے بھی چین کے خلاف تحقیقات جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکا اس کے یورپی اتحادیوں کے بعد اب آسٹریلیا نے بھی چین کے خلاف تحقیقات جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے آسٹریلیا کی وزیر خارجہ ماریسے پینے (Marise Payne)نے چین کو معاشی جبر پر خبردار کر دیا ہے۔  غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق آسٹریلیا میں چینی سفارتکار چینگ جنگ یے (Cheng Jingye)نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ چینی عوام آسٹریلوی مصنوعات اور یونیورسٹیوں کو نظرانداز کر سکتی ہیں۔  آسٹریلیا نے گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت کے تمام اراکین کو کوروناوائرس کی تخلیق اور پھیلائو پر خودمختار نظرثانی کرنے کا کہا تھا جبکہ چینی وزارت خارجہ نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ چینگ جنگ یے(Cheng Jingye) کا کہنا تھا کہ شائد عام عوام کہے کہ ہم آسٹریلوی وائن کیوں پیئیں یا آسٹریلوی بیف کیوں کھائیں۔  انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ سیاح آسٹریلیا آنے سے قبل دوبارہ سوچیں۔ انہوں نے کہا کہ طالب علموں کے والدین بھی سوچیں گے کہ کیا یہی اپنے بچوں کو بھیجنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔

واضح رہے کہ توانائی کی برآمدات کے بعد تعلیم اور سیاحت آسٹریلیا کی برآمدات کی سب سے بڑی صنعت ہے جس کی سب سے بڑی مارکیٹ چین ہے۔ آسٹریلوی وزیر خارجہ ماریسے پینے (Marise Payne)نے اپنے بیان میں کہا کہ آسٹریلیا نے چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کوروناوائرس وبا پر خودمختار نظرثانی کا اصولی مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسے مطالبے پر معاشی جبر کی تجویز کو مسترد کرتے ہیں اور اس وقت ہمیں عالمی تعاون کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ وبا کے حوالے سے ایک دیانتدار تشخیص عالمی ادارہ صحت کے کردار کو مستحکم کر دے گا۔

آج کوروناوائرس کو لے کر دنیا کی دو بڑی فوجی اور اقتصادی طاقتیں آمنے سامنے ہیں تو دوسری جانب مڈل ایسٹ میں عربوں کی آپس کی رنجشیں اب کھل کر سامنے آنے لگی ہیں اور کسی بھی وقت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ سکتے ہیں جس کی وجہ یمن کی جنگ اور عدن کا تیل ہیں۔  یعنی بس اسے چنگاڑی دکھانا باقی ہے پھر کیا ہو گا اس کے نتائج سے کوئی آگاہ نہیں دنیا میں معمولی علاقائی تنازعات پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا سبب بنے۔

پہلی جنگ عظیم کسی حادثے کا نتیجہ نہیں تھی آسٹریا کی طرف سے 28 جون 1914ء میں شاہی خاندان کے فرد فرانز فرڈینینڈ (Franz Ferdinand) کے قتل کی پاداش میں سربیا پر چڑھائی کا فیصلہ جنگ کا باعث بنا۔ آسٹریا اور ہنگری کی پوزیشن بلقان (Balkan) کے خطے میں کمزور ہو رہی تھی اور انہوں نے اسی بنا پر جنگ کا راستہ اختیار کیا۔ مگر سربیا کے خلاف جنگ کے لیے آسٹریا اور ہنگری کو جرمنی کی حمایت کی ضرورت تھی اور پھر جرمنی کی جانب آسٹریا کی غیر مشروط حمایت ہی اس جنگ کی وجہ بنی۔  آسٹریا اور جرمنی دونوں جانتے تھے کہ سربیا پر حملے کی صورت میں روس، سربیا کی حمایت کرے گا اور پھر یہ جنگ مقامی جنگ نہیں رہے گی بلکہ یورپ گیر جنگ میں بدل جائے گی اور پھر سب کچھ منصوبے کے تحت ہی ہوا۔

یکم ستمبر 1939ء کو دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا جس نے پوری دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا اس جنگ نے دنیا کے بہت سارے خطوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ نسلی، مذہبی، انتہاپسندی کو فروغ اسی جنگ کے دوران دیا گیا یہ جنگ 1939ء سے لے کر 1945ء تک جاری رہی اس جنگ میں کروڑوں افراد موت کی وادی میں اتر گئے زخمیوں کا شمار نہیں۔ اس جنگ کا اختتام اس وقت ہوا جب امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم برسائے ان ایٹمی حملوں سے خوفناک تباہی پھیلی اور ابھی تک ان شہروں پر امریکہ کے ایٹمی حملوں کے اثرات باقی ہیں۔  دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کا یہ پہلی اور اب تک آخری بار استعمال تھا۔

جنگ عظیم دوئم اس شروع ہونے کی وجوہات بھی پہلی جنگ عظیم سے ملتی جلتی ہیں بس سکرپٹ میں تھوڑی سی تبدیلی ہے۔  یکم ستمبر 1939 ء کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا اس کے دو دن بعد برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ جرمنی نے جب پولینڈ پر حملہ کیا تو یہ موقف اختیار کیا کہ ہزاروں جرمن لوگوں کو پولینڈ میں تنگ کیا جا رہا ہے، اور ان کا عرصہ حیات تنگ ہو  چکا ہے، ولیٹر بلیٹے کی لڑائی کو اکثر دوسری جنگ عظیم کی پہلی لڑائی کہا جاتا ہے۔ برطانیہ نے جرمنی کو الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ پولینڈ میں فوجی کارروائیاں بند کر دے اسے نظرانداز کرنے پر 3 ستمبر کو برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا، ان دونوں کے ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہو گئے۔

6 ستمبر کو جنوبی افریقہ بھی اس اتحاد میں شامل ہو گیا اور پھر 10 ستمبر کو کینیڈا نے بھی ان سے ہاتھ ملا لیا۔ ان مغربی اتحادیوں نے جرمنی کی بحری ناکہ بندی شروع کر دی جس کا مقصد یہ تھا کہ جرمنی کی جنگی کوششوں اور معیشت کو نقصان پہنچایا جائے۔ 8 ستمبر کو جرمن فوجیں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کے قرب و جوار میں پہنچ گئیں اور پھر اس کا محاصرہ کر لیا گیا۔ 17 ستمبر 1939ء کو جاپان کے ساتھ جنگ بندی کے بعد روس نے مشرقی پولینڈ پر حملہ کر دیا۔  27 ستمبر کو وارسا کے فوجیوں نے جرمن فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔  پولینڈ کی جلاوطن حکومت نے ایک زیر زمین ریاست قائم کی اور اس کے ساتھ ساتھ مزاحمتی تحریک بھی شروع کر دی۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ فوجی شکست کے باوجود پولینڈ کی حکومت نے ہتھیار نہیں پھینکے جرمنی نے پولینڈ کے مرکزی حصے پر قبضہ کر لیا۔

روس نے پولینڈ کے مشرقی حصے کا اپنے ساتھ الحاق کر لیا پولینڈ کے علاقے کے چھوٹے حصوں کو لتھوانیا اور سلوواکیہ کو منتقل کر دیا گیا۔ 6 اکتوبر کو ایک طرف ہٹلر نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ قیام امن کی کوششیں کیں لیکن ساتھ ہی یہ کہا کہ پولینڈ پر جرمنی اور روس کا قبضہ برقرار رہے گا۔ یہ تجویز مسترد کر دی گئی اس کے بعد ہٹلر نے فرانس کے خلاف فوری کارروائی کا اعلان کر دیا لیکن پھر خراب موسم کی وجہ سے یہ کارروائی 1940ء کے موسمِ بہار تک ملتوی کر دی گئی۔  جون 1940 میں سوویت یونین نے ایسٹونیا، لیٹویا اور لتھوانیا کا زبردستی اپنے ساتھ الحاق کر لیا۔ اس کے علاوہ رومانیہ کے متنازعہ علاقوں کو بھی سوویت یونین نے اپنے ساتھ ملا لیا اس دوران نازیوں اور روس کے درمیان سیاسی مصالحت اور معاشی تعاون کا عمل آہستہ آہستہ رک گیا اور دونوں ریاستیں جنگ کی تیاریاں کرنے لگیں۔

اپریل 1940ء میں جرمنی نے ڈنمارک اور ناروے پر بھی حملہ کر دیا۔  ڈنمارک پر چند گھنٹوں کے اندر ہی قبضہ کر لیا گیا جبکہ ناروے کو فتح کرنے میں دو ماہ لگے۔ 10 مئی 1940ء کو سابق فوجی کمانڈر اور وار منسٹر ولسٹن چرچل کو برطانیہ کا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔ اسی دن جرمنی نے فرانس پر حملہ کر دیا اس کے بعد جرمنی نے اپنے حملوں کا رخ بیلئجیم، ہالینڈ، اور لکسمبرگ کی طرف موڑ دیا جو ابھی تک اس جنگ میں غیر جانبدار تھے۔  دسمبر 1940ء میں امریکی صدر روز ویلٹ نے ہٹلر پر الزام عائد کیا کہ وہ پوری دنیا فتح کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا اہم ترین موڑ اس وقت آیا جب جرمنی نے روس پر حملہ کر دی اس وقت تک امریکہ جنگ میں نہیں کودا تھا۔

روسی لیڈر جوزف سٹالن نے اعلان کر دیا کہ نازیوں کے عزائم ناکام بنانے کے لیے ہر روسی باہر نکل آئے۔ سٹالن گراڈ کی لڑائی میں ہر گھر سے روسی باہر نکلا اس لڑائی میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے اس میں کوئی شک نہیں کہ سٹالن گراڈ کی لڑائی وطن کی حفاظت کیلئے لڑی جانی والی سب سے بڑی لڑائی تھی جس میں جرمنی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر جاپان نے امریکہ کے بحری اڈے پرل ہاربر پر حملہ کر دیا اور وہاں پر موجود ان گنت امریکی جنگی جہازوں کو تباہ کر دیا، جس سے امریکہ بھی اس جنگ میں کود پڑا ایک طرف اتحادی ممالک تھے جن میں امریکہ، برطانیہ اور روس شامل تھے اور دوسری طرف جرمنی، اٹلی اور جاپان تھے۔  1945میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم برسا دیئے جس سے دو لاکھ کے قریب افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس کے بعد اس جنگ کا اختتام ہو گیا اس جنگ کے بعد امریکہ اور روس نئی سپر پاورز بن کر ابھرے۔  امریکہ کے زیر اثر بلاک کو سرمایہ دارانہ بلاک کہا جانے لگا، جبکہ روس کے زیراثر ممالک کمیونسٹ بلاک میں آ گئے۔

دوسری جنگ عظیم میں سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا لیکن اس میں فتح کا کریڈٹ امریکہ نے لے لیا۔ ہالی وڈ نے دوسری جنگ عظیم پر جتنی فلمیں بنائیں ان میں روس کے کردار کو نظرانداز کر دیا گیا اس جنگ نے پوری دنیا کا نقشہ بدل کے رکھ دیا اور اس جنگ کے اثرات ابھی تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں طاقتور ترین ایٹمی کیمیائی حیاتیاتی ہتھیاروں کی موجودگی میں دنیا تیسری عالم جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے؟  ان حالات میں ایک معمولی سے چنگاڑی کب پوری دنیا کو بھسم کر دے کسی کو علم نہیں لہذا دنیا کی فوجی اور اقتصادی طاقتوں کو تحمل سے کام لیتے ہوئے بات چیت سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے کیونکہ تیسری عالمی جنگ کا فاتح کوئی بھی نہیں ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply