پاکستان کی عرب ممالک کو ناراض کرنے کی مہم!

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہی دیکھا جائے تو اِن ممالک نے 36 لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں دی ہوئی ہیں

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہی دیکھا جائے تو اِن ممالک نے 36 لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں دی ہوئی ہیں

نیوز ٹائم

نہ جانے کیوں ہمارے ایک طبقے کی کوشش ہے کہ ہمارے تعلقات عرب دنیا خصوصا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ خراب ہوں۔  جھوٹ، سچ بول کر کسی نہ کسی بہانے اب ان ممالک پر تنقید کرنا ایک عام رواج بنتا جا رہا ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ میڈیا کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی ایسے تبصرے کرنے سے گریز نہیں کرتے  اور یہی وجہ تھی کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے وزیر خارجہ نے سعودی عرب کے متعلق ایک ایسی غیرذمہ دارانہ بات ایک ٹی وی ٹاک شو میں کر دی کہ حکومت کو ایک مصیبت پڑ گئی کہ کسی بھی طرح تعلقات کو خراب ہونے سے بچایا جائے۔ سوشل میڈیا اور یوٹیوب چینلز پر تو ان ممالک کے بارے میں ایسی ایسی غیرذمہ دارانہ اور جھوٹی باتیں ہو رہی ہیں کہ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی سازش کے تحت یہ سب کچھ کروایا جا رہا ہے  تاکہ پاکستان اور اِن عرب ممالک کے آپس کے تعلقات کو خراب کیا جائے اور جو تعاون اور جس کا بے شمار ثمر پاکستان حاصل کرتا رہا اور کر بھی رہا ہے، اس سے اِسے محروم کیا جائے۔ کسی اختلافی پالیسی معاملہ پر مہذب طریقے سے میڈیا میں بھی بات ہو سکتی ہے لیکن اِن ممالک اور ان کے حکمرانوں کو حقارت اور تمسخر کا نشانہ بنانا اور ان کے خلاف کمپین چلانا نہ صرف نامناسب ہے بلکہ پاکستان کے لئے خطرناک بھی ہے۔

ہمیں اِس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ عرب ممالک خصوصا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے نہ صرف ہمیشہ ہماری بے پناہ مدد کی اور ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا بلکہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کیلئے یہ دونوں ممالک سب سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔  جی سی سی ممالک میں اِس وقت 40 لاکھ سے زیادہ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہی دیکھا جائے تو اِن ممالک نے 36 لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں دی ہوئی ہیں جو پاکستان کی ترسیلاتِ زر کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔  صرف اِن دو ممالک سے پاکستان کو سالانہ تقریبا 8 سے 10 ارب ڈالر یعنی 1500 ارب روپے سے زیادہ ترسیلاتِ زر موصول ہوتی ہیں۔ ہر سال کوئی 5,4 لاکھ پاکستانیوں کو اِن دو ممالک میں ملازمتیں دی جاتی ہیں۔  اِس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ صرف پاکستان ترسیلاتِ زر کا ایک بڑا حصہ اِن ممالک سے حاصل کرتا ہے بلکہ وہاں کام کرنے والے پاکستانیوں کی وجہ سے تقریبا 2 کروڑ یا اس سے بھی زیادہ پاکستانیوں کی معاش کا یہ دو ممالک ذریعہ ہیں۔  حال ہی میں متحدہ عرب امارات نے بظاہر کورونا کی وبا اور اس کے معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کی وجہ سے پاکستان سمیت دیگر تقریباً 12 ممالک کے ورک ویزا کی پابندی لگا دی ہے۔ اِس پابندی کا مطلب ہے کہ پاکستانیوں کے لئے کم از کم 1000 نئی ملازمتوں کا روزانہ کا نقصان۔ کیا پاکستان یہ نقصان برداشت کر سکتا ہے؟ اگر ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اِن ممالک کے خلاف جھوٹ، سچ پر مبنی ملامتی مہم کو نہ روکا گیا  تو خدشہ ہے کہ اِن ممالک میں پاکستانیوں کے نئی ملازمتوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ وہاں کام کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کی نوکریاں بھی ہاتھ سے جا سکتی ہے جس سے پاکستان کی معیشت تباہ ہو سکتی ہے اور بحرانی حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔

ہاں ہمیں یہ بھی ضرور سوچنا چاہئے کہ پاکستان کے مقابلے میں عرب ممالک کا بھارت کی طرف جھکائو کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟ اس کے لئے دوسروں کو قصور وار ٹھہرانے سے بہتر ہو گا، ہم اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنی کوتاہیوں پر نظر دوڑائیں تاکہ تعلقات کو نہ صرف خراب ہونے سے بچا سکیں بلکہ ان کو مزید مضبوط بنائیں اور کوشش کریں کہ جی سی سی ممالک میں پاکستانیوں کے لئے ملازمتوں کے کوٹے کو ڈبل کیا جائے۔ گزشتہ کئی دنوں سے ہمارا میڈیا اور سوشل میڈیا، جس میں سیاستدان بھی پیش پیش تھے، سعودی عرب پر طعنے بازی کر رہے تھے کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے گزشتہ منعقد ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں کشمیر ایشو کو شامل نہیں کیا گیا۔  آج کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ اس اجلاس میں کشمیر کے حق میں اور بھارت کے خلاف ایک پرزور قرارداد متفقہ طور پر پاس کی گئی۔  آئینِ پاکستان کے مطابق دوست ممالک کے خلاف میڈیا میں ایسا کچھ نہیں لکھا اور بولا جا سکتا جس سے ان ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا خطرہ ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئین کی باقی کئی شقوں کے ساتھ ساتھ اِس شق کو بھی ریاست نے بھلا دیا ہے۔  جہاں تک سوشل میڈیا اور یو ٹیوب کی بات ہے تو ان پر تو کوئی قانون، قاعدہ لاگو ہی نہیں ہوتا، چاہے وہ جو مرضی بولیں، جو مرضی دکھائیں۔  اگر ایسے غیر ذمہ دار میڈیا اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی بات کی جائے تو پھر ہم اسے آزادی اظہارِ رائے پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ افسوس!

No comments.

Leave a Reply