اردگان کی سخت خارجہ پالیسی سے سرمایہ کار خوفزدہ

اردگان کی سخت خارجہ پالیسی سے سرمایہ کار خوفزدہ

اردگان کی سخت خارجہ پالیسی سے سرمایہ کار خوفزدہ

نیوز ٹائم

ترک صدر رجب طیب اردگان کی بڑھتی ہوئی  فیصلہ کن خارجہ پالیسی مغربی اتحادیوں کو مشتعل اور سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر رہی ہے۔ عرب نیوز میں اے ایف پی نیوز ایجنسی کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترک صدر  طیب رجب اردگان اس جانب پیشقدمی میں سست روی پیدا کریں گے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے میونسپل انتخابات میں اردگان کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انقرہ اور استنبول میں ان کے حریفوں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ انتخابات کے ان تلخ  نتائج کے بعد انہوں نے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر حب الوطنی کو بڑھاوا دینا شروع کیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ ترکی اس غیر مستحکم خطے میں غیر دوست اقوام کے خلاف اپنے مفادات کا دفاع کر رہا ہے۔  اردگان نے اپنے سخت بیانات میں رواں ماہ کے شروع میں اس وقت نرمی پیدا کی تھی جب ترکی کو مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے باعث وہ اپنی اقتصادی ٹیم کو جھنجوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

ترک دستے اور فوجی مشیر اب بھی شام سے لیبیا تک پھیلے ہوئے ہیں جس سے یورپ سے واشنگٹن تک  دارالحکومتوں میں اضطراب پیدا ہو  رہا ہے ۔ اردگان مشرقی بحیرہ روم میں اپنے حریف یونان کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔  وہ آرمینیا کے خلاف جنگ میں آذربائیجان کی پشت پناہی کر کے فتحیاب ہونے کے بعد روس کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اردگان اپنے موجودہ طرز عمل سے مختصر مدت کے لئے ووٹرز کو تو اپنی جانب مائل کر سکتے ہیں مگر وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو  راغب نہیں کر سکیں گے جو کمزور ہوتی ہوئی ملکی معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں۔ واشنگٹن کے جرمن مارشل فنڈ کے ایک رکن  کدری تاستان (Kadri Tastan) کا کہنا ہے کہ رجب طیب اردگان کی خارجہ پالیسی ترکی کے حوالے سے بڑی غیر یقینی پیدا کر رہی ہے۔ استنبول کے مرکز برائے اقتصادیات وخارجہ پالیسی مطالعات نے بھی اس امر سے اتفاق کیا ہے کہ اردگان کی پالیسیوں سے یورپ و امریکہ کے معاشی شراکتداروں سے ترکی کے تعلقات کشیدگی کی جانب  مائل ہو رہے ہیں۔ ترکی کے تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات بنیادی طور پر ان دونوں اقتصادی مراکز کے ساتھ ہیں۔ واضح رہے کہ  ترکی کا یورپی یونین سے ٹکرائو کا ایک اہم سبب قبرص اور یونان کے نزدیک سمندر میں ترکی کی جانب سے قدرتی گیس کی تلاش بھی ہے۔ اس بلاک نے گزشتہ ماہ ترکی کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں تو اسے فوری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

واضح رہے کہ یورپی یونین کا آئندہ سربراہ اجلاس 10 اور 11 دسمبر 2020 ء کو ہونے والا ہے۔ ترکی کو امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن کی کامیابی کے بعد روسی اینٹی میزائل سسٹم کی متنازعہ خریداری کی پاداش میں امریکی پابندیوں کا خدشہ بھی ہے۔ اس تناظر میں  تجزیہ کار انتھونی سکنر کا کہنا ہے کہ موجودہ  صورتحال میں اس بات کا خطرہ ہے کہ 2021ء میں ترک، امریکی تعلقات ایک نئی کم ترین سطح پر پہنچ جائیں گے۔

No comments.

Leave a Reply