امریکی سینیٹ نے چین پر حملے کا بل منظور کر لیا

گیارہ ماہ قبل امریکا کے ایوانِ زیریں نے ایک بل منظور کیا تھا جس میں چین سے کہا گیا تھا کہ امریکا کو تبت کے شہر لہاسا میں امریکی سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی جائے

گیارہ ماہ قبل امریکا کے ایوانِ زیریں نے ایک بل منظور کیا تھا جس میں چین سے کہا گیا تھا کہ امریکا کو تبت کے شہر لہاسا میں امریکی سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی جائے

نیوز ٹائم

امریکی سینیٹ نے 21 دسمبر 2020ء  کو 11 ماہ سے زیرِ التوا بل کو عجلت میں منظور کرتے ہوئے چین کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔ 11 ماہ قبل امریکا کے ایوانِ زیریں نے ایک بل منظور کیا تھا جس میں چین سے کہا گیا تھا کہ امریکا کو تبت کے شہر لہاسا میں امریکی سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی جائے جس کی وجہ یہ ہے کہ تبت کو امریکا ایک آزاد ریاست تسلیم کرتا ہے جس کا دارالحکومت لہاسا ہے۔ اس لیے امریکا وہاں اپنا سفارتحانہ بنانا چاہتا ہے۔ یہ بل 21 دسمبر کو سینیٹ سے منظوری کے بعد ایک ایکٹ بن چکا ہے۔ امریکی سینیٹ نے چین سے کہا ہے کہ اگر یو ایس سینیٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کی گئی تو اس کے جواب میں امریکا اور چین کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ جائے گی اور امریکا کوئی بھی قدم اٹھانے میں آزاد ہو گا۔

امریکا اور چین نے تبت کے معاملے پر اختلاف کی وجہ سے جولائی 2019ء میں ایک دوسرے کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ویزے کی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس اقدام سے دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا امریکی سینیٹ کی دونوں بڑی پارٹیوں ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی نے متفقہ طور پر اس بل کو منظور کیا ہے۔ چین کو ترقی یافتہ ملک بنانے میں مائوزے تنگ کا کردار اہم اور غیر معمولی ہے اور مائوزے تنگ کا کہنا تھا کہ تبت ایک ہاتھ کی مانند ہے جس کی انگلیاں اس کے دریا ہیں اور ہتھیلی اس کی سرزمین، اس لیے ہتھیلی پر جس کا قبضہ ہو گا وہی علاقے کا راجا ہو گا اسی لیے بیجنگ کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ اس کی فوج نے 1951 میں تبت کو پرامن طور پر آزاد کروایا تھا لیکن علاقے کے بہت سے شہری چین کی مرکزی حکومت پر الزام لگاتے ہیں وہ ان کے مذہبی استحصال اور ان کی تہذیب کو ختم کرنے میں ملوث ہے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق تبت کے شہریوں کی سخت نگرانی کی جاتی ہے اور کسی بھی غیر چینی شناخت کی علامتیں سامنے آنے کی صورت میں جیل اور بدسلوکی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ غیر چینی شناختوں میں دلائی لامہ کی تصاویر بھی شامل ہیں جو ملک بدر ہیں۔  چین نے 2008 میں بطور احتجاج خود کو نذرآتش کرنے کے واقعات کے بعد صحافیوں کے تبت میں داخلے پر پابندی اور اس کے دارالحکومت لہاسا میں قونصل خانہ قائم کرنے کی امریکی درخواست مسترد کر دی تھی۔  چین نے اس وقت ان امریکی لوگوں پر پابندیوں کا اعلان کیا جنہوں نے تبت سے متعلق معاملات پر برے رویے کا مظاہرہ کیا۔  لیکن اس سے ایک دن پہلے امریکا نے چین پر پابندیاں لگائی تھیں جس کے بعد چین نے جوابی کارروائی کی۔  چین نے مارچ 1959ء کو تبت میں ہونے والی بغاوت کو کچل دیا تھا۔  دلائی لامہ بھاگ کر بھارت میں پناہ گزین ہوا جہاں انہوں نے ایک دھرم شالا میں اپنی جلاوطن حکومت قائم کر رکھی ہے۔ جہاں اس کی بھارتی اور امریکی سی آئی اے مالی امداد کرتی رہی ہے اور اسی دوران امریکا نے تبت پلان بھی بنا رکھا تھا جس پر اب تک عملدرآمد جاری ہے۔  اس مسئلے پر چین اور بھارت کی جنگ ہو چکی ہے جس میں بھارت کو بدترین شکست ہوئی۔ چین کا حصہ بننے سے قبل تبت پر بدھ راہبوں کی ایک مضبوط حکمرانی قائم تھی۔

امریکا کا موقف یہ ہے کہ بیجنگ نے ایک نظام کے تحت امریکی سفارتکاروں، دیگر حکام، صحافیوں اور سیاحوں کو تبت کے خودمختار علاقوں میں جانے سے روک رکھا ہے جبکہ چینی حکام اور شہریوں کو امریکی علاقوں تک بہت زیادہ رسائی حاصل ہے۔  امریکا نے جولائی 2020ء سے چینی حکام پر ویزے کی پابندی لگا دی ہے جن کے بارے میں طے ہے کہ ان غیر ملکیوں کو تبت کے علاقوں سے دور رکھنے میں بھرپور کردار ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے امریکی اقدام کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ تبت سے متعلق مسائل کے ذریعے چین کے داخلی معاملات میں مداخلت فوری طور پر بند کر دے۔ امریکا کے غلط اقدام کے جواب میں چین نے ان امریکی حکام پر ویزے کی پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جنہوں نے تبت کے معاملے پر برے رویے کا مظاہرہ کیا۔

چین نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ ایسے اقدامات سے امریکا اور چین کے تعلقات اور تعاون کو مزید نقصان پہنچے گا۔ اس سے پہلے امریکا نے ہانگ کانگ میں اظہار رائے کی آزادی اور لاکھوں اویغور مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو جن میں زیادہ مسلمان ہیں انہیں قیدی بنانے پر کارروائی کی تھی۔  2018 میں امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کا مقصد ہمالیائی علاقوں میں عائد سخت پابندیوں کے معاملے پر چین پر دبائو ڈالنا تھا۔ امریکا نے 15 اور 16 دسمبر کو تائیوان میں اپنا بحری بیڑہ بھیجا تھا جس کے جواب میں 19 اور 20 دسمبر کو چینی بحری بیڑے نے بھی تائیوان کے گرد چکر لگایا۔

امریکی کانگریس نے چین کے اویغور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر 3 دسمبر 2019ء کو بھی بل منظور کیا تھا جس کے تحت چینی اعلی حکام پر معاشی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ چین نے اپنا سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی بل کا مقصد چین کی شدت پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کی کوششوں کو بدنام کرنا ہے اور یہ چین کی حکومت کی سنکیانگ پالیسی پر حملہ ہے۔ اویغور ایکٹ 2019 ء کے حق میں ایوان نمائندگان کے 407 اراکین نے ووٹ دیا ہے۔  اویغور ایکٹ 2019 ء چین کے صوبہ سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں کے خلاف کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر چین کی حکومت کی مذمت کرتا ہے۔ سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بعد بھی پاکستان چینی پالیسیوں کا حامی ہے لیکن اس کے برعکس ترکی میں رہنے والی اویغور کمیونٹی بھی چین کے مظالم کے خلاف استنبول میں مظاہرے کرتی رہتی ہے۔ جہاں 12 لاکھ اویغور مسلمان رہائش پزیر ہیں جن کو ترکی کی حکومت نے شہریت دے رکھی ہے۔ امریکا کی لاکھوں اویغور مسلمانوں کی حمایت ہو یا تبت میں دلائی لامہ کی مدد اس فساد میں صرف امریکا کا اپنا مفاد ہے جس میں بھارت، امریکا کے ساتھ شراکتداری کر رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بھارت، امریکا اور چین کی جنگ میں پاکستان کو بھاری نقصان پہنچانے کی تیاری کر رہا ہے اور پاکستان کے لیے یہی بہت بڑا خطرہ ہے جس سے اس کو بچنا ضروری ہے۔

No comments.

Leave a Reply