پاسپورٹ منسوخ ہوا تو نواز شریف کے پاس کیا راستہ ہو گا؟

سابق وزیر اعظم نواز شریف

سابق وزیر اعظم نواز شریف

نیوز ٹائم

برطانیہ میں امیگریشن قوانین کے ماہر پاکستانی وکلا کے مطابق پاکستان کی حکومت کی جانب سے نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کرنے یا نیا پاسپورٹ جاری نہ کرنے کی صورت میں بھی نواز شریف برطانیہ میں قانونی طور پر قیام کر سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب تک نواز شریف کے پاس برطانوی ویزہ ہے اور وہ کسی اور ملک کا سفر نہیں کرنا چاہتے تو انھیں پاسپورٹ کی ضرورت ہی نہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے اعلان کیا کہ 16 فروری 2021 ء کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کر دیں گے۔ شیخ رشید کے بیان کے بعد مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے ٹویٹ کی کہ نواز شریف کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو گئی تو ان کا برطانیہ میں رہنا غیر قانونی ہو جائے گا۔ پاسپورٹ زائد المیعاد ہونے پر نواز شریف پاکستان آ کر سفری دستاویز مانگیں گے تو انہیں بہادری دکھانے کا موقع ملے گا۔ نوازشریف کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ پاکستان آ کر مقدمات کا سامنے کریں۔

برطانوی قوانین کے ماہر پاکستانی وکلا سے اس معاملے پر رائے لینے کے لیے رابطہ کیا تو سینیئر قانون دان محمد سہیل بابر نے بتایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کرنا قانونی طور پر موجودہ حکومت کے لیے ممکن نہیں ہو گا بلکہ حکومت کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت ان کا پاسپورٹ زائد المیعاد ہونے پر نیا پاسپورٹ جاری نہ کرے۔ انھوں نے کہا کہ نیا پاسپورٹ جاری نہ کرنا بھی پاکستان کی حکومت کے خلاف ہی جائے گا کیونکہ پاکستانی حکومت نے برطانیہ کو نواز شریف کو ڈی پورٹ کرنے کی درخواست دے رکھی ہے۔

برطانوی امیگریشن قانون کے مطابق ایسی کسی درخواست پر وہ متعلقہ فرد کو اس وقت تک ڈی پورٹ نہیں کرتے جب تک اس کے پاس سفری دستاویز یعنی پاسپورٹ نہ ہو۔ سینیئر قانون دان محمد سہیل بابر نے کہا کہ اب یا تو حکومت یہ نہیں چاہتی کہ نواز شریف کو ڈی پورٹ کروائیں یا پھر وہ پاسپورٹ منسوخ کرنے کے قانونی نقصانات سے آگاہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاسپورٹ زائد المیعاد ہونے کے بعد بھی جب تک نواز شریف کے پاس برطانیہ کا ویزہ موجود ہے ان کا قیام قانونی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر سب سے پہلے حکومت کو یہ پتا چلانا چاہیے کہ کہیں نواز شریف کے پاس آئی ایل آر  (Indefinite Leave to Remain) تو نہیں ہے۔ محمد سہیل بابر نے بتایا کہ آئی ایل آر کا مطلب ہے کہ نواز شریف بغیر ویزہ کے 10 سال تک برطانیہ میں قیام کر سکتے ہیں اور س سال بعد اس میں توسیع بھی کروا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ان کے ویزہ ختم بھی ہو جائے تو برطانوی حکومت چاہے تو کورونا وبا کو بنیاد بنا کر اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے چھ سے 12 ماہ کا ویزہ جاری کر سکتی ہے لیکن یہ ایک دفعہ ہی ممکن ہے۔

سینیئر قانون دان نے کہا کہ برطانیہ میں کسی بھی سزا یافتہ شخص کو سیاسی پناہ نہیں دی جاتی اس لیے سیاسی پناہ کی درخواست نواز شریف کے لیے مشکل ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ اس کے لیے درخواست دیتے ہیں تو انھیں ایک انٹرویو دینا ہو گا جس میں انھیں برطانوی محکمہ داخلہ کو مطمئن کرنا ہو گا۔ ان کے مطابق اگر محکمہ داخلہ مطمئن نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں انھیں حراستی مرکز میں رہنا پڑے گا جہاں سے وہ ضمانت کے لیے درخواست کے ساتھ ساتھ اپیل بھی کر سکتے ہیں تاہم یہ صورت حال نواز شریف کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گی۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف ملک کے تین بار وزیر اعظم رہے ہیں اور انھوں نے یقینا ان تمام قانونی امور پر مشاورت مکمل کر رکھی ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ برطانوی حکومت انھیں کسی بھی امتحان میں ڈالے بغیر اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سیاسی پناہ دے دے۔  سینیئر قانون دان محمد سہیل بابر کہتے ہیں کہ یہ وہ اقدام ہے جو مخصوص حالات میں امیگریشن قوانین سے باہر اٹھایا جاتا ہے۔  میرے کئی جاننے والے افراد اس سے مستفید ہوئے ہیں۔

برطانیہ میں مقیم ایک اور پاکستانی وکیل ایڈووکیٹ عقیل حسین کیانی نے گفتگو میں کہا کہ پاسپورٹ سفری دستاویز ہے۔ اگر ایکسپائر ہو جائے اور ویزہ زائد المیعاد نہ ہو تو نواز شریف برطانیہ میں بغیر کسی پریشانی کے رہ سکتے ہیں۔  انھیں اس وقت تک پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ جب تک وہ برطانیہ سے باہر کسی ملک کے سفر کا ارادہ نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف کے پاس اگر ڈپلومیٹ ویزہ ہوا تو اس کی میعاد ممکن ہے کہ مزید کچھ سال باقی ہو۔  یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے پاسپورٹ پر کافی پرانا ویزہ لگا ہو جو جلد ختم ہونے والا ہو۔  ایڈووکیٹ عقیل حسین کیانی کے مطابق اگر نواز شریف نے بی ار پی ویزہ لگوا رکھا ہے تو اس کی ایکسپائری میں ابھی وقت ہو گا کیونکہ یہ ویزہ کارڈ کچھ عرصہ قبل ہی بننا شروع ہوئے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر نواز شریف کا ویزہ بھی ایکسپائر ہو جائے تو ان کے پاس برطانیہ میں قیام کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ اس پر عقیل حسین کیانی نے کہا کہ اس کے بعد ان کے پاس سیاسی پناہ کا آپشن بچ جاتا ہے۔ اگر برطانوی حکومت نواز شریف کو ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ کر بھی لے جو کہ (غیر متوقع) ہے تب بھی نواز شریف کے پاس دو عدالتوں میں اپیل کا آپشن موجود ہے۔ اس میں اتنا وقت لگ سکتا ہے کہ موجودہ حکومت ختم ہی ہو جائے اور نئی حکومت ان کو پاسپورٹ جاری کر دے جس پر وہ آسانی کے ساتھ ویزہ لگوا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستانی حکومت پاسپورٹ منسوخ کر کے نواز شریف کو بے وطن کرنے کا سوچ رہی ہے حالانکہ اس کے لیے شناختی کارڈ منسوخ کرنا ہوتا ہے جو کہ شاید قانونی طور پر ممکن نہیں ہو گا اور عدالتیں ایسے کسی بھی فیصلے کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہیں۔ ایڈووکیٹ عقیل حسین کیانی کہتے ہیں کہ اگر حکومت ایسا کر بھی دے تو بھی اقوام متحدہ کے کنونشنز کے تحت نواز شریف کو برطانیہ میں قانونی تحفظ مل جائے گا کیونکہ برطانیہ اقوام متحدہ کے کنونشنز پر ان کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرتا ہے۔ امیگریشن ماہرین کے مطابق  برطانوی شہریت کے حامل نواز شریف کے بچے ان کے لیے قانونی طور پر قیام میں کچھ زیادہ معاونت نہیں کر سکتے، تاہم سیاسی پناہ کے عمل کے دوران ان کو ضامن کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور وہ ان کے ضامن بن سکتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply