امریکا کا طالبان سے امن معاہدے پر نظرثانی کا فیصلہ

جو بائیڈن انتظامیہ نے طالبان سے کیے گئے معاہدہ کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے

جو بائیڈن انتظامیہ نے طالبان سے کیے گئے معاہدہ کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان (Jake Sullivan) نے افغان ہم منصب حمداللہ محب سے ٹیلی فونک رابطے میں کہنا تھا کہ جو بائیڈن انتظامیہ نے طالبان سے کیے گئے معاہدہ کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔جیک سلیوان نے کہا کہ طالبان کے شدت پسندوں سے رابطے منقطع کرنے اور افغانستان میں تشدد ختم کرنے کے وعدے کو بھی دیکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی تقریب میں افغان طالبان کی جانب سے ملا عبد الغنی برادر اور امریکا کی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے معاہدے پر دستخط کیے۔  4 صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔

(1)  طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہو گا۔

(2) افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائے گا۔

(3) طالبان 10 مارچ 2020 ء سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔

(4) انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ معاہدے کے پہلے 2 حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے 2 حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔

معاہدے کی تفصیلات

امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیر ملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکیدار، شہری، نجی سیکورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں 8 ہزار 600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ تمام امریکی اور اتحادی 5 ملٹری بیس سے اپنے فوجی ہٹا دیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ساڑھے 9 ماہ کے دوران ملٹری بیس سمیت افغانستان کے تمام حصوں سے باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے روز یعنی 10 مارچ 2020 ء کو طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی قید میں موجود ایک ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی۔

انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا، افغانستان پر عائد تمام پابندیوں سے متعلق نظرثانی شروع کر دے گا اور 27 اگست 2020 ء تک پابندی ختم کر دے گا۔  انٹرا افغان مذاکرات کے ساتھ ہی امریکا، اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کر کے 29 مئی 2020 ء تک اس امر کو یقینی بنائے گا کہ افغانستان کے خلاف عائد تمام پابندیاں ختم کر دی جائے۔  امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی سیاسی و ریاستی خودمختاری کے خلاف بیان بازی سے گریزاں رہیں گے۔

طالبان، اپنے یا کسی بھی گروہ یا انفرادی شخص بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہو۔  طالبان واضح طور پر پیغام دیں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سیکورٹی رسک دینے والوں کے لیے افغانستان میں کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی عسکری ٹریننگ اور جنگجوئوں کی بھرتی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کی پاسداری کریں گے۔  طالبان، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطرہ سمجھے جانے والے شخص، گروہ اور تنظیم کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت یا قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔

خیال رہے کہ نائن الیون واقعے کے چند ہفتے بعد امریکا نے ستمبر 2001 ء میں افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔ اب تک اس جنگ میں 2400 سے زائد امریکی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں اس وقت تقریبا 14 ہزار کے قریب امریکی فوجی اور 39 ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کے 17 ہزار کے قریب فوجی موجود ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد افغان جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply