امریکی پابندیاں ختم ہونے تک جوہری پروگرام میں تخفیف ممکن نہیں، ایران

ترک کے وزریر خارجہ ماولیٹ چاوش اولو  اور ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے

ترک کے وزریر خارجہ ماولیٹ چاوش اولو اور ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے

استنبول  ۔۔۔ نیوز ٹائم

ایران نے امریکا کے اس مطالبہ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جب تک اقتصادی پابندیاں ختم نہیں کر دی جاتیں وہ جوہری پروگرام میں تخفیف نہیں کرے گا۔ غیر ملکی خبررساں ادارے ‘راٹئرز’ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ تہران کے جوہری پروگرام میں تخفیف کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ترکی میں ترک کے وزریر خارجہ ماولیٹ چاوش اولو  (Mevlüt Çavuşoğlu) اور ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ واشنگٹن کا مطالبہ روبہ عمل نہیں اور ایسا نہیں ہو سکتا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ نے کہا تھا کہ تہران جوہری معاہدے 2015ء کے تحت اپنی جوہری سرگرمی کو محدود کر دے۔ رواں ماہ کے آغاز میں ایران نے ایٹمی پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کو 20 فیصد تک دوبارہ شروع کیا تھا۔

واضح رہے کہ 2 جنوری کو ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگراں کے ادارے کو یورینیم کی افزودگی سے متعلق اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ سرکاری ترجمان علی ربیئی (Ali Rabie)  نے ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ کو بتایا تھا کہ شاہد علی محمدی (Shahid Alimohammadi) افزودگی کمپلیکس (فورڈو) میں 20 فیصد یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تاہم ایران نے کہا کہ اگر امریکی پابندیاں ختم کر دی جائیں تو وہ معاہدے کے خلاف ورزیوں کو جلد از جلد ختم کر سکتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر امریکا اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتا ہے تو ہم اپنی ذمہ داریوں کو پوری کریں گے۔ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن (Anthony Blinken) نے امریکا کے خلاف ایرانی دبائو کو قطعی مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایران متعدد معاملات میں معاہدوں پر عمل پیرا نہیں ہے۔ جس پر جواد ظریف نے فوری طور پر ٹوئٹر پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے ‘جوہری معاہدے 2015ء کی پاسداری کی ہے اور تہران نے صرف احتیاطی تدابیر اپنائی ہے۔

واضح رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 ء میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد خطے میں ایران کو اپنی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور میزائل پروگرام سے دستبرداری تھا۔ 8 مئی 2018ء کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر باراک اوباما کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ 5 مارچ 2019 ء کو اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ادارے نے کہا تھا کہ ایران 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے کی تعمیل کر رہا ہے اور مزید ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرنے پر کاربند ہے۔ 2015 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے مابین ویانا میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ ایران نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ ایران بلیسٹک میزائل بنانے کے تمام پروگرام بند کر دے گا اور اس معاہدے کے متبادل کے طور پر ایران پر لگائی گئی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور اسے امداد کے لیے اربوں روپے حاصل ہو سکیں گے۔

No comments.

Leave a Reply