چین کا ہانگ کانگ کے عوام کیلئے برطانوی ‘پاسپورٹ’ تسلیم نہ کرنے کا اعلان

چین کا ہانگ کانگ کے عوام کیلئے برطانوی 'پاسپورٹ' تسلیم نہ کرنے کا اعلان

چین کا ہانگ کانگ کے عوام کیلئے برطانوی ‘پاسپورٹ’ تسلیم نہ کرنے کا اعلان

بیجنگ ۔۔۔ نیوز ٹائم

چین نے اعلان کیا ہے کہ ہانگ کانگ کے عوام کے لیے برطانیہ کا قومی پاسپورٹ (بی این او) مزید تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لی جیان ژا (Zhao Lijian) کا کہنا تھا کہ چین 31 جنوری سے نام نہاد بی این او پاسپورٹ، سفری دستاویزات، شناختی دستاویزات کو تسلیم نہیں کرے گا اور مزید کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کا یہ فیصلہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ بیجنگ نے اس عمل کو کئی مہینوں سے التوا میں رکھا ہوا تھا اور اس کو نیشنل سیکیورٹی قانون سے جوڑا گیا تھا جس کے تحت حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب برطانیہ کی حکومت نے اپنی سابق کالونی کے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم دہرایا۔ خیال رہے کہ بی این او پاسپورٹ کے حامل افراد اتوار سے برطانیہ میں 5 سال تک رہنے اور کام کرنے کے اہل ہوں گے اور ممکنہ طور پر ہریت بھی دی جائے گی۔  بی این او پاسپورٹ سے قبل ہانگ کانگ کے شہریوں کو برطانیہ میں صرف 6 ماہ تک رہنے کی اجازت تھی جبکہ کام کرنے کے حق حاصل نہیں تھا۔برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ ہانگ کانگ کے لیے بی این او کا نیا راستہ نکالا گیا ہے تاکہ وہ ہمارے ملک میں رہائش اور کام کرنے کے مجاز ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خوشی ہے ہم ہانگ کانگ کے عوام کے ساتھ تاریخی تعلقات اور دوستی کے احترام میں یہ سب کر رہے ہیں اور ہم آزادی اور خودمختاری کے حق میں کھڑے ہوئے ہیں۔

بی این او پاسپورٹ کے تحت ہانگ کانگ میں 1997ء سے قبل پیدا ہونے والے شہری برطانیہ میں رہنے کا حق رکھتے ہیں اور اس نئے قانون کے تحت ہانگ کانگ سے ایک اندازے کے مطابق 29 لاکھ لوگ اور ان پر انحصار کرنے والے دیگر 23 لاکھ افراد برطانیہ داخل ہو سکیں گے۔ خیال رہے کہ 1991ء میں برطانیہ نے اس شہر کو چین کے حوالے کیا تھا اور چین یہاں ایک ملک، دو نظام فریم ورک کے تحت حکمرانی کر رہا ہے اور ہانگ کانگ کو نیم خودمختاری حاصل ہے۔ اکتوبر 2019 ء میں ہانگ کانگ میں مجرمان کی حوالگی سے متعلق مجوزہ قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج و مظاہرے کیے گئے تھے، جس نے جمہوری سوچ رکھنے والے ہانگ کانگ کے عوام اور بیجنگ کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کے درمیان شدید اختلافات کو واضح کر دیا تھا۔

ہانگ کانگ میں اس احتجاج کا آغاز پرامن طور پر ہوا تھا تاہم حکومت کے سخت ردعمل کے بعد یہ احتجاج و مظاہرے پرتشدد ہو گئے تھے۔ شدید احتجاج کے بعد ہانگ کانگ کے شہریوں کو ٹرائل کے لیے چین بھیجنے کی اجازت دینے والے قانون کو واپس لے لیا گیا تھا، تاہم اس کے باوجود احتجاج کئی ماہ تک جاری رہا تھا جس میں حقوق کے لیے ووٹنگ کرانے اور پولیس کی پرتشدد کارروائیوں کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے شامل تھے۔ گزشتہ برس جولائی میں برطانیہ نے پیشکش ہانگ کانگ کے تمام شہریوں کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف ان شہریوں کو دی تھی جہ جو برٹش نیشنل اوورسیز (بی این او) پاسپورٹ کے حامل ہیں۔

برطانیہ کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل (Priti Patel)  نے کہا تھا کہ ہانگ کانگ کے بی این او پاسپورٹ کے حامل افراد اور ان کے قریبی لوگ وہاں سے باہر نکلنے کے لیے جنوری سے برطانیہ کے خصوصی ویزے کے لیے درخواست دے سکیں گے۔ برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈومینک راب (Dominic Robb)  نے کہا تھا کہ بیرون ملک مقیم برطانوی شہریت کے حامل ہانگ کانگ کے باسیوں اور ان کی زیر کفالت افراد کو 5 سال کے لیے برطانیہ میں کام کے حق اور تعلیم حاصل کرنے کی پیشکش کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ پہلے سے برطانیہ میں بسے یا شہریت کے حامل افراد کے لیے کوئی کوٹہ نہیں ہو گا، ہم اپنی تاریخی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہوں گے اور نیشنل سیکیورٹی قانون کی منظوری انتہائی مایوس کن ہے۔ سیکریٹری خارجہ نے مزید کہا تھا کہ چین نے اپنے نیشنل سیکیورٹی قوانین کے ذریعے ہانگ کانگ کے عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا، لیکن ہم ان سے کیے گئے وعدوں کو پورا کریں گے۔

No comments.

Leave a Reply