جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کی ایرانی دھمکی

ایران کے وزیر خارجہ ، محمد جواد ظریف ، اور IAEA کے ڈائریکٹر جنرل ، رافیل گروسی

ایران کے وزیر خارجہ ، محمد جواد ظریف ، اور IAEA کے ڈائریکٹر جنرل ، رافیل گروسی

ویانا ۔۔۔ نیوز ٹائم

ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی ایک نئی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایران نے جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ادارے ‘آئی اے ای اے’ کے ساتھ تعاون کا معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ایران نے کہا تھا کہ وہ جوہری توانائی ایجنسی کی ایرانی جوہری پروگرام کی مانیٹرنگ کے باقی آپریشنز میں بھی تعاون روک دے گا۔ دستاویز میں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر آئندہ ہفتے آئی اے ای اے نے امریکا کے ساتھ مل کر ایران کے جوہری پروگرام کی مخالفت میں کوئی قدم اٹھایا تو تہران ایجنسی کے ساتھ معاہدہ ختم کر دے گا۔خیال رہے کہ ایران نے پہلے ہی جوہری توانائی ایجنسی کے معائنے کا عمل محدود کر دیا ہے۔ ایران 2015ء میں طے پائے معاہدے کی شرائط اور پروٹوکول پر عملدرآمد سے فرار اختیار کر رہا ہے۔ ایران کی طرف سے یہ پالیسی 2018ء میں امریکا کی جانب سے ایران کے ساتھ طے پائے معاہدے سے علیحدگی اور تہران پر سابقہ اقتصادی پابندیوں کی بحالی کے بعد اختیار کی گئی ہے۔ آئندہ ہفتے جوہری توانائی ایجنسی سے قبل ایجنسی کے ارکان کو ایک دستاویز ارسال کی گئی ہے۔ آئندہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں عالمی توانائی ایجنسی امریکا کی کوشش سے ایک قرارداد منظور کر سکتی ہے جس میں ایران کے جوہری پروگرام پر گہری تشویش کا اظہار کیا جائے گا۔ خبر رساں ادارے ‘رائیٹرز’ کو ملنے والی دستاویز کی نقل میں کہا گیا ہے کہ عالمی توانائی ایجنسی ایران پر زور دے گی کہ وہ جوہری معاہدے کی خلاف ورزیاں بند کرے اور یہ بتائے کہ اس پرانی اور غیر اعلانیہ تنصیبات پر بڑے پیمانے پر یورینیم کیوں کر افزودہ کیا ہے۔

دوسری جانب ایران جوہری توانائی ایجنسی کی کسی بھی پیشرفت یا تنقید کو معاہدے کو تباہ کرنے کے مترادف قرار دے رہا ہے۔ 21 فروری کو جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی کے ساتھ تہران کی جوہری سرگرمیوں کے معائنے کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایران کے جوہری معاہدے کے حوالے سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام پر تشویش اور تنقید کے لیے قرارداد کا مسودہ فرانس، برطانیہ، جرمنی اور امریکا مل کر تیار کریں گے۔سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ آیا جوہری توانائی ایجنسی یہ قرارداد منظور کرے گی یا نہیں۔

No comments.

Leave a Reply