طالبان کا نئی امریکی انتظامیہ کو انتباہ

طالبان نے بائیڈن کو متنبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان جس قدر جلدی ہو نکل جائے

طالبان نے بائیڈن کو متنبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان جس قدر جلدی ہو نکل جائے

نیوز ٹائم

پاکستان میں 46 ممالک کی بحری مشقوں نے ملک کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے، روس، چین اور ایک مرتبہ پھر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کا رخ کر لیا ہے۔  اس کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک اب پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔  22فروری کو آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ہونے والی کسی بھی جنگ کا پاکستان حصہ نہیں بنے گا اور پاکستان کی دوستی افغانستان میں صرف ان لوگوں سے ہو گی جو وہاں امن کے لیے کوشش کرے گا۔  پاکستان نے نام لے کر کہا کہ پاکستان، اشرف غنی، طالبان اور امریکا کا افغانستان میں جنگ کا ساتھی نہیں ہے۔  وہ سب کو امن کی میز پر بیٹھنے کی دعوت دیتا ہے اور قیام ِ امن میں پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

امریکا کی نئی انتظامیہ نے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر افغانستان میں استعمال کرنے کے لیے اپنی کوشش تیز کر دی ہے اور پاکستان نے بھی امریکا کو بتا دیا ہے، پاکستان، افغانستان میں صرف امن قائم کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہے، لیکن پاکستان، افغانستان میں کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ 23فروری کی اشاعت میں نیوز ویک کی خصوصی رپورٹ کے مطابق! طالبان نے بائیڈن کو متنبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان جس قدر جلدی ہو نکل جائے۔ اس ضمن میں افغانستان سے رپورٹ ملی ہے کہ امریکا اب وہاں فوری طور پر بھارتی افواج کو اتارنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن طالبان، بھارتی افواج کو افغانستان میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ اس سلسلے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینتھ مکنزی (Kenneth F. McKenzie)  کی ملاقات کے بارے میں یہی کہا گیا ہے کہ علاقائی سیکیورٹی صورت حال اور افغان امن عمل پر بات چیت کی گئی۔  عالمی اخبارت کے مطابق امریکا اور افغانستان امن کی باتیں جو بائیڈن دور میں تو ممکن نہیں ہیں۔ جو بائیڈن انتظامیہ افغانستان سمیت تمام اسلامی ممالک میں پراکسی وار کی تیاری کر رہی ہے اور اسی فارمولے کے مطابق امریکا نے حوثی باغیوں کو ایران کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی پر اعتراض کے بجائے خود بھی القاعدہ کے خلاف آپریشن کے نام پر سعودی عرب کی مخالفت میں اسلحہ کی فراہمی شروع کر دی ہے۔  18فروری کو ایک جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینتھ مکنزی (Kenneth F. McKenzie)  نے افغان امن عمل پر بات چیت کی ہے۔

اس کے برعکس دوسری جانب امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انتھونی بلنکن نے بھارت میں کواڈ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ سائوتھ چائنا سی میں امریکا کسی کی بالادستی قبول نہیں کرے گا۔ روسی صدر کے نمائندہ برائے افغانستان ضمیر کبلوف (Zamir Kabulov)  کی جی ایچ کیو میں ملاقات پاکستان کے لیے ایک اہم بات ہے۔ دونوں اعلی شخصیت کے دورے کی بنیادی وجہ افغانستان میں امن ہے جہاں امریکا، بھارت کو بالادست بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔  پاکستان اور روس نے باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ اس دوران باہمی دلچسپی اور افغانستان میں علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ افغانستان میں جاری امن عمل میں ہونے والی پیشرفت بھی زیر غور آئیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ افغانستان میں امن خطے کے بہترین مفاد میں ہے۔ روسی نمائندے نے افغان امن عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کو سراہتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ پاک، روس تعلقات مستقبل میں مزید فروغ پائیں گے۔ دونوں جانب سے باہمی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ امریکا نے روسی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے طالبان اور امریکا کی جنگ کے دوران طالبان کی ہر ممکن مدد کی کوشش کی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے نامزد سیکرٹری آف اسٹیٹ انتھونی بلنکن (Antony Blinken)  نے این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ روس کے خلاف کیا اقدامات زیر غور ہیں؟ جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے روس پر الزامات کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں روس میں قید اپوزیشن لیڈر الیکسی نیوالنی (Alexei Navalny) ، انتخابات میں مداخلت اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف طالبان کے لیے انعامات سمیت دیگر اقدامات بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔ جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے افغان امن معاہدے پر نظرثانی کے بیانات سے امن معاہدے کے مستقبل پر غیر یقینی کے سیاہ بادل منڈلانے لگے ہیں۔ امن معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے طالبان نے بھی سفارتی کوششیں تیز کر دیں، طالبان وفد ایران کے بعد روس پہنچ گیا ہے۔

افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان امن معاہدہ سے امید پیدا ہونے لگی تھی، ٹرمپ کا بستر گول کرنے کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ افغان پالیسی بھی ازسرنو طے کرنے کے لیے پر تولنے لگی ہے۔ امریکی وزارت دفاع اور پنٹاگون کے ترجمان جان کربی (John Kirby)  نے طالبان پر معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا الزام دھر دیا ہے۔ امریکی عہدیداروں نے مئی تک افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کے وعدے کو مشروط قرار دے دیا، تو وہیں امریکی حکام کی جانب سے افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کے دعوے نے بھی امن معاہدے پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن (Antony Blinken)  کی جانب سے طالبان کے وعدئوں کو جانچنے کے بیان سے بھی معاہدے پر بے یقینی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکا کی روایتی دھوکے بازی نے ایک مرتبہ پھر افغانستان میں قتل عام کی منصوبہ بندی اشرف غنی امریکا اور بھارت کی مشترکہ کوششوں سے تیاری کر لی ہے۔ جس میں ایران کو شامل کرنے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔

طالبان کی جانب سے بھی جوابی بیانات اور سفارتی دوروں کا سلسلہ جاری ہے، افغان طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان نعیم وردگ نے امریکی عہدیداروں کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے بھی امریکا سے معاہدے کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔  سیاسی کمیشن کے سربراہ ملا غنی برادر کی سربراہی میں طالبان وفد نے ایران کا دورہ کیا، طالبان کے دورے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف روس پہنچ گئے ہیں۔ طالبان کا ایک دوسرا وفد بھی عباس ستانکزئی کی قیادت میں ماسکو پہنچا وہاں کامیاب مذاکرات کیے۔ اب امریکا کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی ہو گی کہ پاکستان ڈومور والے ملک کی کیفیت سے باہر آ چکا ہے اور اگر امریکا نے افغانستان میں پنجا لڑانے کی کوشش کی تو اس کا پنجا رہے گا اور نہ ہی موجودہ امریکا اپنی اصلی حالت میں اپنا توازن برقرار رکھ سکے گا۔ جو بائیڈن انتظامی کو اسی آرٹیکل میں مشورہ دیا گیا ہے کہ: افغانستان، طالبان، امن ڈیل امریکا کو جنگ سے دور رکھنے کا فارمولا ہے۔ امریکا اس سے فائدہ اٹھانے کی کو شش کرے بصورت ِ دیگر امریکا کو بھاری نقصان کا سامنا ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply