سینیٹ الیکشن: یوسف رضا گیلانی بمقابلہ عبد الحفیظ شیخ

اسلام آباد کی نشست پر  سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی  کا مقبالہ وزیر خزانہ عبد  الحفیط شیخ کے ساتھ ہو گا

اسلام آباد کی نشست پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا مقبالہ وزیر خزانہ عبد الحفیط شیخ کے ساتھ ہو گا

اسلام آباد ۔۔۔نیوز ٹائم

یوسف رضا گیلانی صاحب،  اگر سینٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست سے آپ حصہ لیں تو پارٹی کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری اپوزیشن کے لیے بھی اچھا ہو گا۔  ہمیں یقین ہے کہ حکومت کے کچھ لوگ بھی آپ کو ووٹ دیں گے، نتیجے میں آپ سینیٹر بن جائیں گے۔ اگرسینیٹر بن گئے تو ممکن ہے اپوزیشن سے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار بھی آپ ہوں، ایسے میں چیئرمین سینیٹ نہ بھی بن سکے تو سینیٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن تو آپ ہی بنیں گے۔  پیپلز پارٹی کے نوجوان سینیٹر مصطفی نواز نے فون پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بات کی اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خواہش کا اظہار کیا۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما یوسف رضا گیلانی نے سوچ بچار اور قریبی ساتھیوں سے مشورے کے بعد اسلام آباد سے سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کیلئے ہاں کر دی۔  اس دوران ن لیگ کے چیدہ رہنمائوں شاہد خاقان عباسی اور پرویز رشید کے ذریعے مریم نواز کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔ اس بار یوسف رضا گیلانی سینیٹ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے تھے بلکہ ان کے بیٹے حیدر گیلانی اور قاسم گیلانی نے سینیٹ کی نشست پر پنجاب سے نظریں جما رکھی تھیں۔  پیپلز پارٹی کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹ انتخابات لڑوانے کی تدبیر نے سارا منظر نامہ بدل ڈالا۔

یوسف رضا گیلانی ملک کے سابق وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ وہ ملکی سیاست کا خوشگوار چہرہ ہیں۔ ان کا یہی پس منظر سینیٹ میں اسلام آباد کی نشست سے انہیں ایک طاقتور امیدوار بنا تا ہے۔ مگر یہ سوال ابھی برقرار ہے کہ آیا وہ سینیٹ الیکشن جیتیں گے یا نہیں؟ سینیٹ کا اسلام آباد سے رکن منتخب ہونے کے لیے اس وقت قومی اسمبلی کے 342 ارکان اسمبلی نے ووٹ ڈالنا ہے۔ سرکاری طور پر حکومت کے پاس تمام اتحادیوں کو شامل کر کے 180 ووٹ ہیں جبکہ اپوزیشن 160 ووٹوں کی حامل ہے۔ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بننے کیلئے اپنے مدمقابل پر برتری کیلئے مجموعی طور پر 11 ووٹ درکار ہیں۔

اپوزیشن کا خیال ہے کہ وہ حکومت میں شامل جی ڈی اے کے تین ارکان قومی اسمبلی، 2 آزاد ارکان، جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی اور 12 کے قریب ان ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کر لے گی جو حکومت میں رہتے ہوئے حکومت سے نالاں ہیں۔ بلاول بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کی 25 فروری کو لاہور میں مریم نواز سے ملاقات کے دوران مسلم لیگ ن کو 9 کے قریب حکومتی ارکان قومی اسمبلی کی فہرست بھی دی گئی۔  یہ وہ حکومتی ارکان ہیں جو آئندہ عام انتخابات میں ن لیگ کی طرف سے ٹکٹ کی یقین دہانی پر سینیٹ میں اپنا ووٹ اپوزیشن کو دینے کیلئے تیار ہیں۔  ن لیگ سے تحریک انصاف کے بعض ارکان الگ سے براہ راست رابطے میں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ن لیگ، پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم کے لیے قومی اسمبلی کی اپنی اتنی نشستوں کی قربانی کیوں دے گی؟  بعض لوگ کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کا جہانگیر ترین سے بھی گہرا تعلق ہے۔ جہانگیر ترین کی اہلیہ آمنہ ترین یوسف رضا گیلانی کی ماموں زاد ہیں، اس لیے جہانگیر ترین اس موقع پر یوسف رضا گیلانی کی مدد کر کے عمران خان سے اپنا بدلہ بھی لے سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ جہانگیر ترین اتنا بڑا رسک کسی ہلہ شیری کے بغیر لے سکتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی متاثر کن ہیں مگر اس سب کے باوجود اگر سپریم کورٹ کی طرف سے ووٹنگ خفیہ بھی قرار دے دی جائے تو اسٹیبلشمنٹ کبھی غیر جانبدار نہیں ہو گی۔ اس کی غیر جانبداری دراصل اپوزیشن کی جانبداری ہو گی۔ اگر یوسف رضا گیلانی سینیٹ کا انتخاب جیت گئے تو جیت کے فوری بعد اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائیں گی۔ کیا موجودہ نظام ایسی اپوزیشن کے ہاتھ دینے کا رسک لیا جا سکتا ہے جس پر اسٹیبلشمنٹ اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کا مستقبل بھی اسی حکومت کے فیصلہ سازوں سے جڑا ہوا ہے۔

یوسف رضا گیلانی کے مدمقابل سندھ سے تعلق رکھنے والے مشیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ ہیں۔ شیخ صاحب کا اسٹیبلشمنٹ سے بڑا گہرا تعلق ہے۔  اسی تعلق کے باعث انہیں موجودہ حکومت میں وزارت خزانہ کی کنجی دی گئی اور وہ سینیٹ کے میدان میں بھی اتارے گئے۔ شیخ صاحب کو انتخابی دنگل میں اتارنے والے پوری سپورٹ فراہم کر رہے ہیں اور اپوزیشن کے بعض ارکان سے بھی رابطے کیے گئے ہیں۔  ڈر تو یہ ہے کہ حکومت کی بجائے اس بار بھی اپوزیشن کے ووٹ کم نہ ہو جائیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈسکہ میں عام انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے اور حمزہ شہباز کی ضمانت سے ماحول میں حکومت کے خلاف ایک ارتعاش ضرور پیدا ہوا ہے تاہم حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے سے پرے نہیں ہوئے۔  موجودہ حکومت کا تحفظ اسٹیبلشمنٹ کا اپنا تحفظ ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے یا ہوتی ہے وہ شاید حقائق کا درست ادراک نہیں رکھتے۔ ایسا ماضی میں بھی کبھی نہیں ہوا اور آئندہ بھی نہیں ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply