دو ہزار بیس میں دنیا میں انسانی حقوق کی صورت حال تشویشناک رہی، سالانہ رپورٹ

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی 2020 ء کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق رجحانات غلط سمت میں جانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے انسانی حقوق سے متعلق محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں کچھ ”مختلف مسائل” پیدا کیے ہیں، جس میں بعض حکومتوں نے ”وبا کے بحران کو حقوق پر پابندیوں کے جواز اور آمرانہ حکومتوں کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا”۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ لاک ڈائون کے دوران معاشرتی تحفظ یقینی بنانے والے روایتی طریقے محدود ہونے سے خواتین اور بچوں کے لیے صنفی یا گھریلو تشدد کے خدشات میں اضافہ ہو گیا۔  جبکہ آبادی کے ”دیگر کمزور طبقات” کو، جن میں عمر رسیدہ افراد، جسمانی کمی کا شکار یا صنفی لحاظ سے مختلف شاخت رکھنے والے افراد شامل ہیں، خصوصی طور پر خطرات کو سامنا کرنا پڑا۔ امریکی کانگریس کی منظوری سے مرتب کی جانے والی محکمہ خارجہ کی یہ سالانہ رپورٹ، ان ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں تیار کی جاتی ہے، جنہیں امریکہ امداد فراہم کرتا ہے۔  منگل کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں 2020 ء کے دوران امریکہ میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں یا سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد عائد کیے گئے انتخابی دھاندلیوں کے ان الزامات کا ذکر نہیں ہے، جنہیں مبصرین بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ بلنکن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے انسانی حقوق کو اپنی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح بنایا ہے، جبکہ یہ تسلیم کیا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق اپنے بلند ترین معیارات اور اصولوں پر پورا اترنے کے لیے امریکہ کو اپنے گھر یعنی اندرون ملک بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہر اس طریقے کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے، جس سے دنیا کو زیادہ پرامن اور انصاف پر مبنی بنایا جا سکے۔ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ “2020 کے دوران امریکہ کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد کو ظالمانہ صورت حال میں مشکلات برداشت کرنی پڑیں۔ انہوں نے اس موقعے پر ان ملکوں کا ذکر کیا، جہاں امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق انسانی حقوق کی صورت حال اچھی نہیں رہی۔ محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں چین، ایران، روس، میانمار اور بیلاروس سمیت متعدد ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اس موقعے پر چین کے صوبہ سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر کیا اور صورت حال کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا ۔ انہوں نے صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے شام کے باشندوں سے کیے جانے والے سلوک اور یمن کی جنگ سے پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی تباہ کن صورت حال کا ذکر بھی کیا۔

روس کی حکومت کی جانب سے اپوزیشن لیڈر الیکسی نیوالنی جیسے سیاسی مخالفین سمیت پر امن مظاہرین کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات، وینیزویلا کے لیڈر نکولس میڈورو اور ان کے اہم ساتھیوں کی کرپشن، کیوبا، نکارا گوا، ترکمانستان اور زمبابوے کی حکومتوں کی جانب سے سیاسی تقریروں پر لگائی گئی پابندیاں کا ذکر بھی تفصیل سے امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس کا ذکر امریکی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں بھی کیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی پالیسیوں کے بلیو پرنٹ کو باضابطہ طور پر تبدیل کر دیا ہے، جس کی بنیاد پر انسانی حقوق سے متعلق امریکہ کی پالیسیاں صرف ان اہداف کی حمایت تک محدود کر دی گئی تھیں، جنہیں مبصرین کے مطابق قدامت پسندوں کی حمایت حاصل تھی، جیسے کہ مذہبی آزادیاں۔ رپورٹ کے مطابق بلنکن نے منگل کو واضح طور پر کہا کہ وہ ایک ایسی رپورٹ کو مکمل طور پر ختم کر رہے ہیں، جو امریکی سفارتی عملے کو دوسرے ملکوں کی حکومتوں سے خاص طور پر ان مخصوص معاملات پر رہنمائی فراہم کرنے کے لیے مرتب کی گئی تھی۔

بلنکن نے سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی جانب سے “unalienable rights” یعنی ناگزیر حقوق کے لئے قائم کیے گئے ایک کمیشن کی سفارشات کو ”غیر متوازن” قرار دیا، جس کی گزشتہ سال پیش کی جانے والی رپورٹ کی انسانی حقوق کے تحفظ کے علم برداروں نے مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ اس میں تولیدی حقوق اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بلنکن نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کو بدلنے کا اعلان کیا، جس کے مطابق انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں دوسرے ملکوں میں تولیدی حقوق سے متعلق کچھ حصے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔  امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ خواتین کے جنسی اور تولیدی حقوق بھی انسانی حقوق کا حصہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کو ہدایت کی گئی ہے، کہ انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں اضافی تحریریں شامل کی جائیں، جن میں زچہ کی شرح اموات، خواتین کی تولیدی اور جنسی صحت اور زچگی اور اسقاطِ حمل سے متعلق معلومات شامل ہوں۔ بلنکن کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی اساس یہ ہے کہ وہ عالمگیر ہوتے ہیں، اور ہر شخص کے لیے ہوتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply