آصف علی زرداری کی سیاسی چالیں

سابق صدر آصف علی زرداری

سابق صدر آصف علی زرداری

نیوز ٹائم

سینٹ میں پچھلے چند ہفتوں میں جو کچھ ہوا اس پر وزیر اعظم عمران خان حیران ہیں اور مریم نواز پریشان۔ اگر کوئی شخص مطمئن نظر آیا تو وہ سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی سیاست کا اپنا انداز ہے جہاں اصول، نظریہ، بیانیہ یہ سب بے معنی سی باتیں ہیں، اہم بات نتائج ہیں۔ وہ کامیابی کے لئے ہر حربہ استعمال کر سکتے ہیں۔ مخالف کی وکٹ پر کھیلنا انہیں پسند ہے۔ ویسے تو وہ سیاست میں پچھلے 30/35 سال سے ہیں مگر عملا یہ سیاسی رنگ زیادہ ابھر کر 2008 کے بعد نظر آیا۔  اب بھی وہ بہت سی چیزیں پس پردہ رہ کر کرتے ہیں جیسے 2008 ء کے الیکشن سے پہلے بلوچستان میں سیاسی آپریشن جس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کے بطن سے بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) معرض وجود میں آئی، سابقہ اور موجودہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اسی کی پیداوار ہیں۔ اس بار تو کمال زرداری نے حکومت کو بھی سرپرائز دیا اور اپوزیشن کو بھی، قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی اکثریت کے باوجود سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہو گئے اور وزیر اعظم کے امیدوار حفیظ شیح ہار گئے۔  عمران خان کے غصے کا اندازہ ان کے خطاب سے کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد کیا۔

دوسری طرف یہ جانے بغیر کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ مریم نواز سمیت PDM کی تمام جماعتیں اسے وزیر اعظم پر عدم اعتماد کہہ کر نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے لگیں۔  ابھی یہ جشن مکمل نہیں ہوا تھا کہ سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا، بڑا شور مچا۔ کیمرہ اسکینڈل بھی سامنے آیا اور گیلانی صاحب کے حق میں پڑنے والے 7 مسترد ووٹ بھی۔ یہاں بھی اپوزیشن یک زبان نظر آئی۔ علی گیلانی کی وڈیو کا معاملہ ابھی حل طلب ہے۔ مگر بادی النظر میں حکومت نے تو خیر کچھ نہیں کیا مگر کھیل پلٹ گیا۔ زرداری صاحب نے بہرحال گیلانی صاحب کو محض سینیٹر تو نہیں بنوانا تھا لہذا انہوں نے انہیں قائد حزب اختلاف بنوا دیا اور وہ بھی PDM کی قربانی دے کر۔  نواز شریف، مریم نواز، مولانا فضل الرحمن سب اسی طرح حیران و پریشان تھے جس طرح وزیر اعظم عمران خان۔

اب نظریاتی بات تو یہ ہے کہ دراصل زرداری صاحب نے خود اپنی جماعت پی پی پی یا پی پی پی پی کی سیاسی قربانی بھی دی مگر یہ سب ان کی سیاست میں معنی نہیں رکھتا۔ تنقید کرنے والے اینکرز کو وہ ویسے بھی سیاسی اداکار کا خطاب 2010 ء میں دے چکے ہیں۔  البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ سارے تجزیہ کار اور اینکر جو گیلانی صاحب کے سینیٹر بننے پر ان کو ہدف تنقید بنا رہے تھے وہ ان کے اپوزیشن لیڈر بننے پر اسے زرداری صاحب کی سیاسی مہارت قرار دے رہے ہیں۔  وزیر اعظم عمران خان جو گیلانی کے سینٹر بننے پر شدید غصے میں تھے، وہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات پر خاصے خوش ہیں اور شائد اسی خوشی میں انہوں نے کورونا میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنی ٹیم کے ساتھ اجلاس بھی کر لیا یہ جانے بغیر کے اس سے عوام میں کیا پیغام گیا۔

زرداری صاحب نے کمال مہارت سے 2008 ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی مگر وعدہ کے مطابق سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت معزول ججز کو بحال نہیں کیا، جس کی وجہ سے میاں نواز شریف سے تعلقات خراب ہو گئے اور انہوں نے 2009 ء میں لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔  ان سب سے پہلے زرداری صاحب صدر بن گئے، گیلانی وزیر اعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ سب پی پی پی کے۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ مسلم لیگ اور پی پی پی کے درمیان فرینڈلی اپوزیشن کا رشتہ تھا۔  لانگ مارچ، پنجاب میں گورنر راج، اور پھر میاں صاحب کا کالا کوٹ پہن کر اعلی عدلیہ سے گیلانی صاحب کو نااہل قرار دلوانا یہ سب زرداری صاحب کو یاد تھا۔  انہیں یہ بھی یاد رہا کہ کس طرح 2015 ء میں میاں صاحب کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ان کے قریبی دوستوں، ڈاکٹر عاصم حسین اور دیگر کو گرفتار کیا گیا انہوں نے غصے میں یہاں تک کہہ دیا، میاں صاحب نے پہلو میں چھرا گھونپا ہے۔  اب میاں صاحب وضاحتیں کرتے رہے کہ اس ایکشن میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔  وہ تو ظہرانہ بھی ملتوی نہیں کرنا چاہتے تھے مگر غالبا چوہدری نثار اور خواجہ آصف کے کہنے پر معاملہ ٹال دیا۔

زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان پر بڑی مشکل میں تھے اور وہ دن ہے اور آج کا دن بس اینٹ سے اینٹ لگانے میں لگے ہوئے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وہ میاں صاحب کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ سے پیچھے ہٹ گئے یہ کہہ کر کہ تحریک چلانی ہے تو ملک واپس آئیں، بات ایسی غلط بھی نہیں۔ مگر زرداری صاحب تو اس حد تک آگے جاتے نظر آتے ہیں کہ اس سال ذوالفقار علی بھٹو کی برسی گڑھی خدا بخش کے بجائے راولپنڈی میں منانے کا اعلان کر دیا مگر جلسہ کورونا کے باعث ملتوی ہو گیا۔ اس بار روایت سے ہٹ کر مجلس عاملہ کا اجلاس بھی لاڑکانہ کے بجائے 15 اپریل کو کراچی میں ہو گا۔  باقی باتیں تو اپنی جگہ مگر یہ اعتراض تو نہیں بنتا کہ مسلم لیگ (ن) نے ایک ایسا امیدوار دیا جو بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث مبینہ ملزمان کا وکیل رہا ہے۔ حضور کم از کم یہ بات تو آپ نہ کریں۔ یاد نہیں بی بی نے 18 اکتوبر کے حملوں کے بعد کس کس پر شک کیا تھا اور ان کے ساتھ آپ نے کیا کیا؟ اپنی طرز سیاست میں وہ پولو کے اچھے کھلاڑی تو بن گئے، سیاسی شطرنج بازی میں بھی اپنی مثال آپ ہیں مگر جس پارٹی کو بدترین آمر ختم تو دور کی بات محدود نہ کر سکا وہ آج کہاں کھڑی ہے؟ چاروں صوبوں کی زنجیر اب سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔  اگر یہ طرز سیاست کامیاب ہے تو واقعی وہ ایک کامیاب سیاستدان ہیں، ذرا سوچئے!

No comments.

Leave a Reply