بھارتی مودی اور بنگلادیشی حسینہ واجد کی دہشتگردی

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اس کی ہم نوا و ہم منصب حسینہ واجد

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اس کی ہم نوا و ہم منصب حسینہ واجد

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

خطے میں اسلام اور مسلمانوں کے بڑے دشمن، قوم پرست سیاسی جماعت بی جے پی کے مہرے اور ہندو انتہاپسند تنظیموں کی پشت پناہی کرنے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اس کی ہم نوا و ہم منصب حسینہ واجد نے پاکستان دشمنی کا مشترکہ جشن منانے کے لیے بنگلادیش میں دہشتگردی کا بازار کر دیا، جس کے نتیجے میں 10 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے جبکہ مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ دارالحکومت ڈھاکا میں بنگلادیش کے 50 ویں یوم آزادی کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے اپنی شرکت کا اعلان کرتے ہی ملک گیر احتجاج شروع ہو گیا تھا، اس دوران شہریوں اور طلبہ نے بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر مودی کی آمد ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسے قاتل اور اسلام دشمن قرار دیا۔ جمعہ 26 مارچ کو مودی کے ڈھاکا پہنچنا تھا، اس موقع پر سینکڑوں افراد نے مرکزی بیت المکرم مسجد کے باہر بڑا مظاہرہ کیا۔  احتجاج کے شرکا نے کسی قسم کے بینر یا پلے کارڈ بھی نہیں اٹھا رکھے تھے جبکہ پرامن احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے کسی بھی قسم کی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار بھی نہیں کیا، تاہم مودی مخالف نعروں میں کہا گیا کہ قاتل مودی واپس جائو۔ اسی دوران حسینہ واجد کی حکومت نے ہمیشہ کی طرح مخالفین کو دبانے کا روایتی حربہ استعمال کرتے ہوئے طاقت استعمال کرنے کا اشارہ دیا اور مظاہروں کے مقامات پر بھاری نفری تعینات کی گئی۔ ڈھاکا حکومت اور نئی دہلی کی جانب سے اس معاملے پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا، جس کے ردعمل میں ڈھاکا یونیورسٹی کے سینکڑوں طلبہ نے سڑک پر مارچ کیا اور مودی کے خلاف گجرات کا قصاب کے نعرے لگائے۔ اس موقع پر طالب علموں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر مودی واپس جائو، بھارت واپس جائو اور واپس جائو قاتل مودی کے نعرے درج تھے۔

واضح رہے کہ 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی ہی تھے، جنہوں نے ہندو مسلم فسادات کروائے جس کے نتیجے میں 1000 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔  اس حوالے سے نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ دنیا بھر سے تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق تنظیموں نے ریاستی حکومت ہی کو ہندو مسلم فسادات کا ذمے دار قرار دیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ نریندر مودی اور ان کے حامیوں کی جانب سے غنڈوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی، تاہم بھارتی عدالت عظمی نے متنازع کردار ادا کرتے ہوئے مودی ہی کے حق میں فیصلہ دیا۔

بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے خلاف ملک گیر کریک ڈائون، رہنمائوں کو پھانسیوں اور اپوزیشن قیادت سمیت سیاسی مخالفین کو جیلوں میں قید کرنے کی حقیقت جاننے کے باوجود ڈھاکا میں احتجاج کرنے والوں نے بغیر کسی خوف کے اپنے مظاہروں میں مودی نواز وزیر اعظم حسینہ واجد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی تنازعات موجود ہیں۔  ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی بھارت میں مسلمانوں پر زمین تنگ کر رہی ہے، ان کا قتل عام جاری ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں ہندو آبادکاری کے ذریعے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی سازشی کی جا رہی ہیں۔  ساتھ ہی بنگلادیشی سرحد پر بھارتی فورسز کی جانب سے شہریوں پر تشدد کیا جانا معمول بن چکا ہے۔  ان سب اختلافات کے باوجود مودی کا بنگلادیش آنا ناقابل قبول ہے۔  احتجاج کے شرکا کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد حکومت کی جانب سے مودی کو دعوت دی گئی ہے، جبکہ ہم اس کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گے۔ مودی کے بنگلادیش پہنچنے پر مظاہرین کے خلاف سرکاری طاقت کے استعمال کے دوران 5 افراد کی ہلاکت کے خلاف حفاظت اسلام کی جانب سے ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔  پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ ملک کے دوسرے بڑے شہر چٹاگانگ کے علاقے ہتازاری میں مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں اور آنسوگیس فائر کی گئی، تاہم پولیس نے الزام عائد کیا کہ اس سے قبل ایک بڑے مجمع نے سیکیورٹی فورسز پر حملے اور پتھرائو کی کوشش کی تھی۔  اس دوران کئی افراد زخمی ہوئے، جنہیں طبی امداد کے لیے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔

دوسری جانب دارالحکومت ڈھاکا میں مظاہروں کے خلاف سیکیورٹی فورسز نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا، جس میں درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ جمعہ کے روز مودی کے پہنچتے ہی احتجاجی مظاہروں میں شدت آ چکی تھی، جس پر اگلے ہی روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک بند کر دی گئی۔  اس سے قبل بھی مظاہروں اور حکومت مخالف احتجاج کی لہر روکنے کے لیے فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا ذرائع کی بندش کو حسینہ واجد حکومت کی جانب سے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا ہے۔  مودی کے دورہ بنگلادیش کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ ہفتے اور اتوار کے روز بھی جاری رہا، جس میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر شدید احتجاج کیا اور مودی کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے جنگی جنونی بھارتی وزیر اعظم کے پتلے نذرآتش کیے اور اس کی ہمنوا حسینہ واجد پر سخت تنقید کی۔ کئی مقامات پر ہونے والی جھڑپوں میں مظاہرین کے ساتھ صحافی بھی زخمی ہوئے۔ حفاظت اسلام کے رہنما مجیب الرحمن حامدی نے تصدیق کی کہ ان کی تنظیم سے وابستہ کچھ مظاہرین جاں بحق ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں، جس کے نتیجے میں کئی افراد شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مودی کے پہنچنے کے بعد سے بنگلادیش بھر میں احتجاج کی شدید لہر جاری ہے، اس دوران بارڈر گارڈز، پولیس اور ایلیٹ ریپڈ ایکشن بٹالین کے اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کی گئی، جنہیں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔  کئی مقامات پر کریک ڈائون کے دوران پولیس نے درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا، جنہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق تنظیموں کی جانب سے بنگلادیش میں بڑھتی شخصی آمریت، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔  ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق تشدد کے مناظر کے بعد بنگلا دیشی حکام کی جانب سے تشویشناک طرز عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔  تنظیم کے جنوبی ایشیا کے تحقیق کار سلطان محمد زکریا کے مطابق پرامن احتجاج کا حق، خصوصا کورونا کی وبا کے دوران، مسلسل حملے کی زد میں رہا جس کا نتیجہ خونی جبر و تشدد کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اپنے حالیہ دورے سے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ بھارت، بنگلادیش کو بہت اہمیت دیتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندو انتہاپسند جماعت کے کٹھ پتلی مودی سیاسی فوائد کے حصول کے لیے بنگلا دیش پہنچے ہیں، جن میں اولین مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں بنگلالیوں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔  تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی اپنے انداز کے مطابق س غیر ملکی دورے کے دوران ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سینئر بھارتی صحافی گوتم ہورے نے اس حوالے سے کہا کہ مودی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کی نظر میں بنگلا دیش کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ کورونا وبا شروع ہونے کے بعد سے وہ اپنا پہلا دورہ بنگلا دیش ہی کا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ مغربی بنگال کے متوا بنگالیوں کا دل جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ شہریت کے معاملے پر متوا بنگالی بی جے پی سے ناراض ہیں۔ دراصل مودی حکومت نے ان کی شہریت کے مسئلے کو فورا حل کرنے کا وعدہ کیا تھا، تاہم اسے پورا نہیں کیا۔ بھارتی صحافی گوتم ہورے کے مطابق بھارت کے بنگلا دیش کے ساتھ تعلقات کو بہتر سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ شیخ حسینہ حکومت کو بھارت نواز کہا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں بنگلا دیش میں بھی بھارت مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔  اس کی ایک وجہ بھارتی سرحدی فورسز بی ایس ایف کی فائرنگ میں بنگلا دیشی شہریوں کی ہلاکت بھی ہے۔

واضح رہے کہ جس طرح بنگلادیش میں حسینہ واجد آمرانہ انداز میں حکومت چلا رہی ہیں اور اس دوران تمام سیاسی مخالفین یا تو جیلوں میں بند ہیں یا ان پر سیاسی مقدمات قائم ہیں جبکہ سرکاری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حسینہ واجد حکومت ہر رکاوٹ کو دبانے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے خلاف سخت ترین کریک ڈائون جاری ہے اور اس کے رہنمائوں کو حکومتی اشاروں پر چلنے والی نام نہاد عدالتوں سے سزائیں دلوا کر پھانسی چڑھایا جا چکا ہے۔ عین یہی طرز عمل بھارت میں جنگی جنونی وزیر اعظم نریندر مودی کا ہے، جو خود کو خطے کا آمر بنانے کے لیے نہ صرف امن دشمن اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اپنے پڑوسی ممالک میں دخل اندازی کی کوششوں کے نتیجے میں رسوا بھی ہو رہا ہے۔ بنگلا دیش کی طرح نیپال کے ساتھ بھی بھارت کے قریبی روابط ہیں، تاہم بنگلا دیش ہی کی طرح نیپال کے ساتھ بھی بھارت کی دوریاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں، جس کی ایک مثال گزشتہ برس نومبر میں بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کے متنازع پر نیپال نے سخت اعتراض کیا تھا، جس میں کالا پانی نامی علاقے کو بھارتی ریاست اترا کھنڈ کا حصہ دکھایا گیا تھا جبکہ نیپال کا دعوی ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے تقریبا تمام ہی پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تو پہلے سے کشیدگی ہے اور آج کل چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ نیپال کے ساتھ بھی رشتے بگڑتے جا رہے ہیں جبکہ سری لنکا کے ساتھ بھی پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ بھارتی وزیر اعظم کی اوٹ پٹانگ حرکتیں، غیر دانشمندانہ فیصلے، عوام دشمن اقدامات خصوصا ہندوتوا پالیسی ایک دن خود بھارت ہی کی تقسیم کا باعث بن جائے گی، تاہم اس وقت مودی یا اس جیسے ہندو انتہاپسندوں کے ساتھ کوئی جشن منانے والا نہیں ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply