تنگوسکا ایونٹ: جس کا معمہ اب تک حل نہیں ہو سکا

واقعے کے 20 سال بعد کی تصویر میں بھی درخت گرے ہوئے ہیں

واقعے کے 20 سال بعد کی تصویر میں بھی درخت گرے ہوئے ہیں

سائبریا ۔۔۔ نیوز ٹائم

انسانی تاریخ کا وہ پراسرار ترین واقعہ جس کو اب 113 سال ہو گئے ہیں مگر اب بھی سائنسدانوں کو معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر وہ ہوا کیسے۔ یہ 30 جون 1908ء کی بات ہے جب سائبریا کے علاقے ایونکی (Evenki) کے رہائشیوں نے آسمان پر نیلے رنگ کی روشنی کی حرکت کو رپورٹ کیا تھا جو ان کے بقول سورج جتنی تیز تھی۔ روشنی کی رپورٹ کے 10 منٹ بعد ایسی گرجدار آواز سنائی دی جیسے بھاری توپخانے سے گولہ باری کی جا رہی ہو۔ یہ آواز مشرق سے شمال کی جانب سفر کر رہی تھی جبکہ اس کے بعد ایک شاک ویو نے قصبے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ دھماکے کی آواز جس کی لہریں یورو، ایشیا بلکہ برطانیہ تک زلزلہ پیما مراکز نے ریکارڈ کیے، مگر ایونکی (Evenki)  اور اردگرد کے قصبوں کے رہائشیوں نے درحقیقت کسی قسم کے حقیقی دھماکے کو نہیں دیکھا۔ اس دھماکے کے بعد کئی دن تک ایشیا اور یورپ کے اوپر آسمان میں جگمگاہٹ کو دیکھا گیا جو برفانی ذرات بلندی پر بننے کا نتیجہ تھا جبکہ مختلف ممالک میں ماحولیاتی دبائو میں تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ اگرچہ دھماکا تو کسی نے دیکھا نہیں مگر اس کے مقام کو ضرور دریافت کر لیا گیا جو مشرقی سائبریا میں واقع تھا۔ وہاں موجود 800 اسکوائر میل رقبے پر پھیلا جنگل یا 8 کروڑ درخت مکمل طور پر غائب ہو گئے اور اس کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آ سکی۔

سائنسدانوں کا ابتدا میں ماننا تھا کہ وہ دھماکے کے اثر کا نتیجہ ہے مگر اس مقام پر کبھی کوئی گڑھا دریافت نہیں ہو سکا۔ مگر جنگل کا جتنا بڑا مکمل طور پر سپاٹ ہو گیا، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا تھا کہ دھماکے کی طاقت 10 سے 15 ٹن تھی۔ سائنسدانوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر یہ دھماکا ہوا کیوں کیونکہ اتنی طاقت کا دھماکے سے ایک بڑے شہر تباہ ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا اور جب سے ہی سائنسدان کے ذہن چکرا رہے ہیں کہ آخر ایسا ہوا کیوں اور وجہ کیا تھی۔ خوش قسمتی سے وہ علاقہ آباد نہیں تھا ورنہ بہت زیادہ انسانی جانوں کا ضائع ہوتا مگر دھماکے کی حرارت کو دور دراز کے قصبوں کے رہائشیوں نے محسوس کیا تھا۔ ایک عینی شاہد نے اس موقع پر بتایا کہ آسمان 2 حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا اور جنگل کے اوپر آسمان کا شمالی حصہ آگ سے بھرا ہوا لگتا تھا۔ اس کا کہنا تھا اس وقت ایک آسمان میں ایک دھماکا ہوا اور بہت بڑا کریش ہوا، ایسا کریش جس کو سن کر لگتا تھا کہ آسمان سے پتھر برس رہے ہوں یا گنوں کی فائرنگ ہو رہی ہو۔ اسے ٹونگوسکا ایونٹ (Tunguska event) کا نام دیا گیا جو انسانی تاریخ کا اب تک سب سے طاقتور ریکارڈ دھماکا بھی ہے جس سے خارج ہونے والی ہیروشیما میں گرائے جانے والے ایٹم بم سے 185 گنا زیادہ تھی۔ مگر ایک صدی سے بھی زائد عرصے بعد محققین کے ذہنوں میں مختلف سوالات موجود ہیں کہ آخر اس جگہ ہوا کیا تھا۔ کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایک سیارچہ اس دھماکے کی وجہ تھی مگر اتنے بڑے خلائی جسم کے شواہد اب تک دریافت نہیں ہو سکے۔ کچھ حلقوں کے خیال میں یہ آتش فشاں پھٹنے یا کان کنی کا کوئی حادثہ تھا مگر اس کے بھی شواہد نہیں مل سکے۔

درحقیقت سربیا کے اس خطے کا موسم ڈرامائی قسم کا ہے، جہاں موسم سرما کا دورانیہ بہت طویل ہوتا ہے جبکہ گرمی کا موسم بہت مختصر، جس کے باعث سطح میں ایسی تبدیلیاں آئی جن نے اس جگہ کو ناقابل رہائش بنا دیا، بلکہ وہاں پہنچنا ہی بہت مشکل ہے۔ جب دھماکا ہوا تو کسی کو بھی تحقیقات کے لیے وہاں جانے نہیں دیا گیا کیونکہ روسی حکام کو مختلف خدشات تھے۔ 1927 میں روس کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے آخرکار اس جگہ کا دورہ کیا اور دریافت کیا کہ دھماکے کے لگ بھگ 20 سال بعد بھی وہاں ہونے والا نقصان ویسے کا ویسا ہی تھا۔ اس ٹیم نے خیال ظاہر کیا کہ ایک خلائی جسم فضا میں پھٹا جس سے یہ نقصان ہوا مگر کوئی بھی گڑھا یا خلائی ذرات دریافت نہیں ہو سکے۔ تو ٹیم نے یہ وضاحت کی کہ وہاں کا دلدلی خطہ اتنا زیادہ نرم تھا کہ اسے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا جبکہ تمام تر ملبہ اس کے اندر دفن ہو گیا۔ مگر دلدلی حصے کی گہرائی میں کچھ بھی دریافت نہیں ہو سکا اور کچھ دہائیوں بعد روسی سائنسدانوں نے کہا کہ یہ کوئی شہاب ثاقب نہیں بلکہ دمدار ستارہ تھا، جن کا زیادہ تر حصہ چٹانی نہیں بلکہ برف پر مبنی ہوتا ہے۔ زمین کے ماحول پر ہونے والی تباہی کے بعد برف بخارات بن کر اڑ گئی مگر یہ خیال بھی درست ثابت نہیں ہو سکا۔ تو پھر عجیب خیالات سامنے آئے جیسے کسی خلائی مخلوق کا اسیس کرافٹ اس مقام پر گر کر تباہ ہوا۔

1958 میں محققین نے اس مقام سے سلیکٹ اور مقناطیسی پتھر کے ننھے ذرات کو دریافت کیا اور مزید تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہاں کی سطح میں نکل کی مقدار زیادہ ہے جو شہاب ثابت کا ایک جانا مانا عنصر ہے۔ مگر بحث تھم نہیں سکی اور 1973ء میں ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ ایک بلیک ہول کا زمین سے ٹکرائو اس دھماکے کا نتیجہ ہوا مگر اس کی تردید پر مبنی تحقیق بھی فوری طور پر سامنے آ گئی۔

2014 میں یوکرین کے ماہرین کی ایک ٹیم نے دھماکے کے مقام سے 1978ء میں اکٹھے کیے جانے والے چٹانی نمونوں کا تجزیہ کیا اور انہوں نے 1908ء کی ایک تہہ کو دریافت کیا۔ ماہرین نے کاربن منرل lonsdaleite کے آثار دریافت کیے، جو اس وقت تشکیل پاتا ہے جب کوئی شہاب ثابت زمین سے ٹکراتا ہے۔ مگر یہ بھی واضح نتیجہ نہیں تھا اور 2020 ء میں ایک تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ایک بڑا آئرن شہاب ثاقب زمین کے اتنے قریب آ گیا کہ بہت بڑا شاک ویو پیدا کر سکے، مگر ٹکڑے ہوئے بغیر زمین کے پاس سے گزر گیا، اور شاک ویو کا اثر اس خطے میں دیکھنے پر آیا۔ تو یہ واقعہ اب تک انسانی تاریخ کے چند پراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے جس پر اب تک تحقیقی کام جاری ہے اور آنے والے برسوں میں اس حوالے سے مزید خیالات سامنے آتے رہیں گے۔

No comments.

Leave a Reply