صدر بائیڈن نے 1915ء میں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کونسل کشی تسلیم کر لیا

صدر بائیڈن نے 1915ء میں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کونسل کشی تسلیم کر لیا

صدر بائیڈن نے 1915ء میں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کونسل کشی تسلیم کر لیا

واشنگٹن، انقرہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکا کے صدر جو بائیڈن نے 1915ء میں سلطنت عثمانیہ کی فوج کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کشی تسلیم کر لیا ہے۔ وہ یہ فیصلہ کرنے والے امریکا کے پہلے صدر ہیں جبکہ ترکی نے ان کے بیان کو مسترد کر دیا ہے اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انھوں نے ہفتے کے روز آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کی برسی کے موقع پر جاری کردہ بیان میں نسل کشی کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ انھوں نے ایک روز قبل ہی ترک صدر رجب طیب اردگان سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی اور انھیں اپنے اس فیصلے کے بارے میں مطلع کر دیا تھا۔ صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم ان تمام لوگوں کو یادکر رہے ہیں جو عثمانیہ دور میں آرمینیائوں کی نسل کشی کے وقت مارے گئے تھے۔ ہم خود سے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ اس طرح کا قتل عام دوبارہ کبھی نہ ہو۔ امریکی صدر کے اس بیان کو آرمینیا اور بالخصوص بیرون ملک رہنے والے آرمینیائی باشندوں کی ایک بڑی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ ایک عرصے سے اپنے آبائواجداد کے پہلی عالمی جنگ کے دوران میں عثمانی فوج کے ہاتھوں قتل عام کو نسل کشی قرار دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ آرمینیائی باشندے ہر سال 24 اپریل کو دنیا بھر میں ایک صدی قبل اپنی نسل کے تقریبا 15 لاکھ افراد کے قتل عام کی یاد میں دن مناتے اور مظاہرے کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ یوروگوائے نے 1965ء میں سب سے پہلے اس قتل عام کے لیے نسل کشی کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اس کے بعد سے فرانس، جرمنی، کینیڈا اور روس سمیت متعدد ممالک آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کو تسلیم کر چکے ہیں لیکن امریکا کے سابق صدور نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ کسی کو الزام تو نہیں دے رہے لیکن اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جو کچھ رونما ہوا تھا، اس کا پھر اعادہ نہ ہو۔ امریکا کی ایک سینیر عہدہدار کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے یہ فیصلہ صرف اور صرف انسانی حقوق کے میرٹ کی بنیاد پر کیا ہے۔ انھوں نے کسی کو الزام دینے سمیت اس سے ماورا کسی اور سبب سے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اس عہدیدار نے صدر بائیڈن کی سوچ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکا میں منظم نسل پرستی کے بھی خلاف ہیں اور اس موضوع پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔

دوسری جانب ترکی نے صدر بائیڈن کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے امریکا تاریخ کو ازسرنو رقم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترک وزیر خارجہ مولود شاوش اوغلو (Mevlüt Çavuşoğlu) نے صدر بائیڈن کے اعلان کے فوری بعد ایک ٹویٹ میں کہا کہ الفاظ تاریخ کو تبدیل کر سکتے ہیں اور نہ اس کو دوبارہ لکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنی تاریخ کے بارے میں کسی سے کوئی نیا سبق نہیں لیں گے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے استنبول میں آرمینیائی اسقف کے نام ایک پیغام میں کہا ہے کہ ایک تیسرا فریق ایک صدی پرانی بحث کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ انھوں نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ بحث مباحثے سے کسی شخص کا فائدہ نہیں ہوتا اور یہ مباحث صرف مرخین کو کرنے چاہییں لیکن ایک تیسرا فریق انھیں سیاسی رنگ دے رہا ہے اور اس کو ہمارے ملک میں مداخلت کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے مصالحانہ طرزعمل اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی، آرمینیا کے ساتھ اچھی ہمسائیگی اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات استوار کرنے کو تیار ہے۔ مولود شاوش اوغلو (Mevlüt Çavuşoğlu) کے تحت وزارت خارجہ نے سخت الفاظ میں تردید بیان جاری کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ہم 1915ء میں رونما ہونے والے واقعات سے متعلق امریکی صدر کے بیان کو مسترد کرتے ہیں اوراس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ انھوں نے 24 اپریل کو ریڈیکل آرمینیائی حلقوں اور ترکی مخالف گروپوں کے دبائو پر یہ بیان جاری کیا ہے۔ اس نے مزید کیا ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ  اس بیان کی کوئی فلسفیانہ یا قانونی بنیاد نہیں ہے، کوئی تاریخی شواہد بھی اس کی تائید نہیں کرتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون میں نسل کشی کی اصطلاح کی بڑے واضح الفاظ میں وضاحت کی گئی ہے اور 1915ء میں رونما ہونے والے واقعات پر اس اصطلاح کا ہرگز بھی اطلاق نہیں کیا جا سکتا ہے۔

نسل کشی کی اصطلاح کے لیے مہم:

صدر جو بائیڈن پر حالیہ دنوں میں اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے کے لیے دبائو ڈالا جاتا رہا ہے۔ انھوں نے گذشتہ سال اپنی انتخابی مہم کے دوران میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ آرمینیائی باشندوں کے پہلی عالمی جنگ میں ترکی کی سلطنت عثمانیہ کی فوج کے ہاتھوں قتل عام کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کر لیں گے۔ لیکن ترکی نے اس سے پہلے بھی صدر بائیڈن کو خبردار کیا تھا کہ اگر انھوں نے ایسا کوئی فیصلہ کیا تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔ دونوں ملک معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو میں بھی شامل ہیں اور اس فوجی اتحاد کی افواج میں ترکی کا اہم کردار ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس ایڈم شیف (Adam Schiff)  نے گذشتہ منگل کو صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدے کو پورا کریں۔ انھوں نے صدر کے نام ایک کھلے خط میں لکھا تھا کہ ہم اسی ہفتے دیکھیں گے کہ آیا آپ فرانس، جرمنی، یورپی یونین، ویٹی کن اور 49 دیگر ریاستوں کے لیڈروں کی صف میں شامل ہوتے ہیں جو پہلے ہی آرمینیا کی نسل کشی کو تسلیم کر چکے ہیں۔

قبل ازیں امریکی سینیٹ کے 35 ارکان نے صدر جوزف بائیڈن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آرمینیا میں ترکی کی سابق سلطنت عثمانیہ کی افواج کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کشی تسلیم کر لیں۔ اس طرح وہ یہ فیصلہ کرنے والے امریکا کے پہلے صدر ہوں گے۔ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں کے ایک گروپ نے صدر بائیڈن کے نام ایک خط بھی لکھا تھا۔ اس میں ان سے کہا تھاکہ ماضی میں دونوں جماعتوں کی انتظامیہ آرمینیا میں قتل عام کی سچائی کے بارے میں خاموش رہی ہے۔ ہم آپ پر زور دیتے ہیں کہ پیچیدگی کے اس انداز کو ختم کریں اور آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کو سرکاری طور پر تسلیم کریں۔ ان کے پیش رو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ 1915ء میں پہلی عالمی جنگ کے دوران میں ترک فوج کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کشی خیال نہیں کرتی ہے۔

امریکا کی نائب صدر کمالا ہیرس نے دو سال قبل سینیٹ میں اپنے ایک ساتھی سینیٹر سے مل کر ایک قرارداد متعارف کرائی تھی، اس میں آرمینیا میں نسل کشی کو تسلیم کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں نے 2019ء میں اس قرارداد کے ذریعے عثمانی ترکوں کی فوج کے ساتھ لڑائی میں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیا تھا جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا اور سابق صدر ٹرمپ نے اس کو منظور نہیں کیا تھا۔ امریکا کے سابق صدور یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ آرمینیا کی نسل کشی کو تسلیم کرنے سے نیٹو اتحادی ترکی کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آ سکتا ہے لیکن جو بائیڈن نے گذشتہ سال انتخابی مہم کے دوران میں کہا تھا کہ وہ آرمینیا میں نسل کشی کو تسلیم کرنے سے متعلق بل کی حمایت کریں گے۔

یاد رہے کہ امریکا کے ایک اور سابق صدر باراک اوباما نے بھی بطور امیدوار انتخابی مہم کے دوران میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ منتخب ہونے کی صورت میں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کشی تسلیم کریں گے لیکن اپنی جیت کے بعد انھوں نے اس اصطلاح کو استعمال نہیں کیا تھا کہ اس کے بجائے ان کا کہنا تھا کہ وہ وائٹ ہائوس میں آنے سے قبل کے موقف اور نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ آرمینیا کا یہ موقف ہے کہ سلطنت عثمانیہ کی فوج نے پہلی عالمی جنگ کے دوران میں 15 لاکھ افراد کا قتلِ عام کیا تھا۔ اس کا مقصد مسیحی نسلی گروپ کی تطہیر تھا۔ ترکی اس بات کو تو تسلیم کرتا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کی فوج کے ساتھ جنگ میں بہت سے آرمینیائی باشندے ہلاک ہو گئے تھے لیکن وہ انھیں ایسے منظم انداز میں قتل کرنے کے الزامات کی تردید کرتا ہے جنھیں مغرب کی اصطلاح میں نسل کشی قرار دیا جا سکے۔ مغربی ممالک ایک عرصے سے آرمینیائی باشندوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دیتے چلے آ رہے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply