موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہمارے اقدامات دنیا کو نظر کیوں نہیں آتے؟

بائیس اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ماحولیات پر بلائے گئے ورچول سربراہی اجلاس میں دنیا کے 40 ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی

بائیس اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ماحولیات پر بلائے گئے ورچول سربراہی اجلاس میں دنیا کے 40 ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی

نیوز ٹائم

22 اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ماحولیات پر بلائے گئے ورچول سربراہی اجلاس میں دنیا کے 40 ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی، خیال رہے کہ ان 40 ملکوں میں سے 17 ممالک ایسے ہیں جو دنیا میں 5 میں سے 4 حصے کی گرین ہائوس گیس فضا میں خارج کرنے کے ذمہ دار ہیں۔یہ سربراہی اجلاس دراصل امریکا کی جانب  سے پیرس معاہدے سے علیحدگی کے باعث برباد ہوئے وقت کی بھرپائی کے لیے بلایا گیا تھا۔  یہ اجلاس امریکا کو موسمیات کے عالمی منظرنامے میں واپس لانے اور اپنے مقامی ایجنڈے کو عالمی موسمیاتی پالیسی کے مطابق ڈھالنے میں انتظامیہ کی مدد کرے گا۔  پالیسی کا بنیادی مقصد 2050ء تک گلوبل وارمنگ یا عالمی تپش کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنا ہے اور ابتدائی مرحلے کے طور پر 2030ء تک کاربن کے اخراج میں 50 فیصد کمی لانے کی کوششیں کی جائیں گی۔

جو بائیڈن کی انتظامیہ نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے 4 نکاتی حکمتِ عملی پیش کر دی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ امریکی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی سب سے بڑی منصوبہ بندی:  موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی غرض سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے اضافی فائدے کے طور پر ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا (یاد رہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے 7 کروڑ امریکی بے روزگار ہیں)  توانائی کے میدان میں ری نیو ایبل انرجی یا قابلِ تجدید توانائی اور برقی گاڑیوں و انفرااسٹرکچر کے ذریعے کوئلے پر انحصار کا خاتمہ اور شمسی اور آبی توانائی کو امریکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بنانا اور گرین ٹیکنالوجی کے میدان میں چین، یورپی یونین اور دیگر ممالک پر سبقت پانا۔ اس سربراہی اجلاس کے ذریعے مقامی معیشت کو عالمی موسمیاتی ایجنڈے سے جوڑنے اور نومبر 2021ء میں ہونے والی کلائمٹ چینج کانفرنس (COP 26) سے پہلے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات کے لیے عالمی کوششوں میں تیزی لانے سے مذکورہ اقدامات کی حمایت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سربراہی اجلاس میں پاکستان مدعو نہیں تھا۔ شکر ہے کہ ہمارے موسمیاتی تبدیلی کے متحرک مشیر ملک امین اسلم کو اجلاس کے موافقت یا اڈاپٹیشن سے متعلق سیشن میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔  مگر خطے کی دیگر ریاستیں جیسے بنگلہ دیش، چین اور بھارت اس کے علاوہ عرب دنیا سے سعودی عرب کو مدعو کیا گیا۔  ان ملکوں نے ایسا کون سا کام کیا ہے جو پاکستان نہیں کر سکا؟ بنگلہ دیش اس وقت کلائیمٹ ولنرایبلٹی فورم نامی 48 ملکی گروپ کی قیادت کر رہا ہے۔  اس گروپ میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی ایک ارب 20 کروڑ بنتی ہے اور یہ ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے عالمی اخراج میں 5 فیصد کے حصہ دار ہیں۔ چونکہ اس فورم میں شامل ممالک دنیا میں سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ممالک میں شامل ہیں، اس لیے انہوں نے عالمی تپش کو 1.5 سیلسیس تک محدود رکھنے کا ارادہ کیا ہے اور ہر رکن ملک نے صدی کے وسط سے پہلے تک اپنی معیشت کو نیٹ زیرو یا خالص صفر اخراج سے موافق معیشت بنانے کا عزم کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ممالک زبردست اخلاقی قوت رکھتے ہیں اور انہیں متعدد بنیادی اقدامات کے لیے حمایت بھی حاصل ہے۔ دراصل موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی مذاکرات کے میدان میں یہی اس فورم کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

ایک طرف جہاں بنگلہ دیش اور پاکستان کم کاربن خارج کرنے والے ممالک میں شامل ہیں وہیں چین دنیا میں سب سے زیادہ اور بھارت تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والا ممالک ہیں۔ دونوں ممالک نے ہوائی اور شمسی توانائی کے شعبے میں متاثر کن کامیابیاں حاصل کی ہیں اور دونوں ان ٹیکنالوجیوں کی سب سے زیادہ پیداوار اور انہیں سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ممالک بن چکے ہیں۔  تاہم چین اور بھارت دونوں کوئلے سے توانائی کی پیداوار کی عادت کو ابھی تک ترک نہیں کر پائے اور ایندھن کا استعمال چھوڑنے کے لیے مزید وقت چاہتے ہیں۔

چین فوسل فیول یا حفری ایندھن اور اس کے ساتھ ساتھ قابلِ تجدید توانائی کا سب سے بڑا سرمایہ کار اور اسے سب سے زیادہ استعمال کرنے والا ملک بنا ہوا ہے۔  موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کسی بھی عالمی عمل میں ان دونوں ممالک کی شمولیت لازمی ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آئندہ لائحہ عمل پر عالمی باہمی اتفاق رائے قائم ہو سکے۔ امریکا کے برعکس بھارت میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات اب تک مقامی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔  دوسری طرف چین مختلف ٹیکنالوجیوں بالخصوص برقی گاڑیوں، توانائی کی ذخیرہ اندوزی، مقامی سطح پر کاربن ٹریڈنگ اور کاربن بانڈز، اس کے علاوہ ماحولیاتی نظام پر مشتمل کاربن ڈائی آکسائیڈ قابو میں لانے اور اسے ذخیرہ کرنے کے عمل سے متعلق مختلف طریقوں میں سب سے آگے ہے۔

امریکہ کی کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت بڑھا کر کسی حد تک اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کیا جائے، دراصل موخر الذکر تجارتی اور سرمایہ کاری کا مرکز بننا چاہتا ہے اور 2030ء تک موسمیاتی اہداف کے لیے اسے ہر سال 170 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔  چونکہ ان 3 ممالک کے پاس تجارت، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کی بہتات ہے لہذا ایک دوسرے کے اوپر انگلی اٹھائے بغیر ایک دوسرے سے مانگنے اور دینے کے لیے بہت کچھ ہو گا۔ موسمیاتی امور پر خصوصی صدارتی نمائندے جان کیری کا حالیہ دورہ چین اور بھارت پہلے ہی ان کے درمیان مستقبل کے موسمیاتی تعلقات کا نقشہ پیش کرتا ہے۔

دوسری طرف سعودی عرب دہائیوں سے حفری ایندھن کی صنعت کے مفادات کی خاطر بین الاقوامی موسمیاتی مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے بلکہ اس عمل کو تعطل کا شکار بناتا رہا ہے۔ انتظامیہ درحقیقت سعودی عرب کو مدعو کر کے امریکا کی مقامی سیاست میں پڑنے والی دراڑوں کو مشرق وسطی تک لے جا چکی ہے۔ قابلِ تجدید توانائی کی طرف جانے سے دنیا میں حفری ایندھن کی طلب میں زبردست کمی آئے گی اور اسی لیے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو بھی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عمل میں شامل کرنا ضروری ہے۔ انتظامیہ امریکی مفاداتی گروہوں کی جنگ کو مشرق وسطی کے قلب تک لے جا رہی ہے۔ اگرچہ امکانی زلزلے کا مرکز دوسری جگہ منتقل کیا جا چکا ہے لیکن پاکستان سے متعلق امریکی ایجنڈے کا مرکزی نکتہ اب بھی 9/11 سے پیدا ہونے والی ابتری کو ٹھیک کرنا ہے۔ پاکستان بھلے ہی مدعو نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ یہ ملک رواں سال جون میں ماحولیات کے عالمی دن کی شریک میزبانی کرے گا۔  پاکستان کو زیادہ سے زیادہ عالمی توجہ حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل 3 باتوں پر عمل کرنا ہو گا۔

اول:

اپنے مقصد کو عالمی مقصد کے ہم آہنگ بنانا ہو گا۔ پاکستان کو ان عالمی قوتوں کی صف میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کا کام تیزی سے انجام دینا چاہتی ہیں۔ اسی لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی تپش کو 2 سیلسیس گریڈ کے بجائے 1.5 سیلسیس گریڈ تک محدود رکھے۔ صدی کے وسط تک خود کو کاربن نیوٹرل اور 2030ء تک تقریبا زیرو کاربن اخراج رکھنے والا ملک بنانے اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے خاتمے کی باضابطہ طور پر حمایت کرے۔اپنا فیصلہ واضح کرنا ضروری ہے اور اسی طرح اپنے قومی مقصد کو حکومت کے زیرِ غور ‘ڈیٹرمائنڈ کنٹری بیوشن’ اور ‘نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی’ کے ذریعے دنیا کو بتانا بھی لازمی ہے۔

دوم

بھروسہ جیتنا ہو گا۔ پاکستان کے اعلانات کو قابلِ بھروسہ ہونا چاہیے اور انہیں منصوبہ بندی و مناسب اقدامات کے تحت وزن دار بنایا جائے۔ بہتر سے بہتر اعلامیے بھی صرف اس وقت ہی قابلِ بھروسہ قراد دیے جا سکتے ہیں جب ان کے لیے رقم مختص ہو اور ان کا وقفے وقفے سے جائزہ لینے اور ان سے برآمد ہونے والے نتائج کو دنیا کے سامنے لانے کا انتظام ہو۔تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو پاکستان کی تحقیق اور سائنسی صلاحیت کے درمیان موجود خلا سے زیادہ اس کی کارکردگی اور اعداد و شمار کے درمیان خلیج دنیا کا اعتماد حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہیں۔ چونکہ ہمارے اعداد و شمار اور رپورٹنگ میں دانستہ یا نادانستہ طور پر بار بار غلطیاں ہوتی ہیں اس لیے تیسرے فریق کی توثیق سے ہم دنیا کا ہمیں دیکھنے کا نظریہ بدل سکتے ہیں۔ دیرینہ شکوک و شبہات کے خاتمے سے بدگمانیوں اور غیر ضروری عالمی تنہائی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

سوم

اپنے مقصد کو واضح کرنا ہو گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ماحولیات سے متعلق عالمی میدان میں ہمارے ملک کو بھی شامل رکھے تو اس کے لیے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافق ترقیاتی منصوبہ بندی پر عمل کا عزم ظاہر کرنا ہو گا جس کے تحت معیشت کو کاربن سے پاک کرنا ہو گا اور قابلِ جدید توانائی اور قابلِ استطاعت توانائی کے ذریعے اپنی مسابقت بڑھانی ہو گی، مادی اور انسانی سرمایے کو پائیدار بنانا ہو گا اور معیشت کو ماحولیات سے متعلق فیصلوں سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے macro-fiscal sustainability کو بہتر کرنا ہو گا۔پاکستان ان اقدامات سے حاصل ہونے والی کامیابی کی کہانیاں دنیا کو سنا کر موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی مذاکراتی عمل کا حصہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس اس سے بہتر نسخہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

No comments.

Leave a Reply