کلبھوشن کیس: عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے بھارت کے پاس ایک اور موقع

انڈیا کے را ایجنٹ جاسوس کلبھوشن یادیو

انڈیا کے را ایجنٹ جاسوس کلبھوشن یادیو

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسلام آباد ہائیکورٹ میں کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہم کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے بھارت کو عدالتی معاونت کا ایک اور موقع فراہم کر دیا گیا۔ عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جہاں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھارتی ہائی کمیشن کے وکیل نے ایک متفرق درخواست دائر کی، اس درخواست سے لگتا ہے کہ بھارت کو اس عدالت کی کارروائی سے متعلق کوئی غلط فہمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا بھارت عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کو تیار نہیں ہے، بادی النظر میں لگ تو کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بھارت نے پاکستان کی جانب سے کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور موقف اپنایا ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں پیش ہونا ان کی خودمختاری کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے چار دیگر قیدیوں کے کیس میں اسی عدالت سے رجوع کیا، کلبھوشن یادیو کیس میں بھارت کو خودمختاری کا اعتراض ہے تو دیگر قیدیوں کے کیس میں کیوں نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھارت اپنا نمائندہ مقرر کر کے اس عدالت کو یہ بتا دے کہ وہ کیا چاہتا ہے، بھارت کی خودمختاری پر قطعا کوئی شک نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بھارت اتنی معاونت کر دے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیسے کرانا ہے، اس کیس میں بھارت کی خودمختاری کا تو سوال ہی نہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس عدالت کے تمام احکامات کمانڈر کلبھوشن یادیو تک پہنچائے گئے تاہم وہ اب تک اپنے موقف پر قائم ہے کہ اس نے عدالت سے رجوع نہیں کرنا۔ بعد ازاں عدالت نے معاون حامد خان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ حکومت پاکستان کو کلبھوشن کو وکیل فراہم کرنے کیلئے خود عدالت آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالت کا فیصلہ چیلنج کیا جا سکتا ہے، حکومت پاکستان کو سراہتے ہیں کہ انہوں نے بھارت اور بھارتی شہری کو فائدہ پہنچایا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں حامد خان کی بات سے اختلاف کرتا ہوں کہ حکومت کو عدالت نہیں آنا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت پاکستان عدالت نہ آتی تو اس وقت عالمی عدالت انصاف میں توہین عدالت کی سماعت چل رہی ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو پاکستانیوں کے قاتل سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم بھارتی حکومت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں تاہم بھارت اس عدالت میں سماعت ختم ہونے کے انتظار میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت انتظار میں ہے کہ یہ سماعت ختم ہو تو بھارت عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے بھارت کو عدالتی معاونت کا ایک اور موقع فراہم کیا اور بھارتی ہائی کمیشن سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 15 جون تک ملتوی کر دی۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور عالمی عدالت میں مقدمہ:

یاد رہے کہ ”را”  کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 ء کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ انہیں ”را”  کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 ء اور 2005 ء میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ”را” کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جبکہ 2016 ء میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔بعد ازاں اپریل 2017 ء کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔ بھارت نے 9 مئی 2017 ء کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کر لیا گیا۔ عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جا سکتا۔ بھارت نے دعوی کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی ”را”  ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کر سکا تھا۔ جس کے بعد 18 مئی 2018 ء کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کر دی۔

بعد ازاں 17 جولائی 2019 ء کو عالمی عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ سنا دیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کر دی گئی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کر دی تھی۔ قبل ازیں دسمبر 2017 ء میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے ان کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات بھی کروائی تھی۔ علاوہ ازیں عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد ستمبر 2019 ء میں کلبھوشن یادیو کو دی گئی پہلی قونصلر رسائی ویانا کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت دی گئی تھی جو 2 گھنٹوں تک جاری رہی تھی۔ جس کے بعد جولائی 2020 ء میں پاکستان نے زیر حراست اور سزا یافتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را” کے جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو دوسری مرتبہ قونصلر رسائی دی تھی۔

No comments.

Leave a Reply