اسامہ بن لادن۔ زندگی اور موت

یکم مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں نے ایک آپریشن کیا اور اسامہ بن لادن کو مارنے اور اس کی لاش ساتھ لے جانے کی خبر جاری کی

یکم مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں نے ایک آپریشن کیا اور اسامہ بن لادن کو مارنے اور اس کی لاش ساتھ لے جانے کی خبر جاری کی

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

یہ 1991ء کی بات ہے جب خلیجی جنگوں کے دوران 300000  امریکی فوجیوں نے پہلی مرتبہ سعودی عرب کی سرزمین پر قدم رکھا۔  یہ خلیجی جنگ کوڈ نام آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ (Code-named Operation Desert Shield)  کے نام سے لڑی گئیں منصوبہ کے ساتھ عراق کو کویت پر قبضے کی ڈھکے چھپے انداز میں دعوت دی گئی۔ یہ گویا جال تھا جس میں صدام حسین پھنس گئے۔  اگست 1990ء میں عراقی فوج نے کویت پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ سب سے پہلے فوری طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے عراق کے خلاف معاشی پابندیاں لگائی گئیں اور پھر امریکا کی زیر قیادت 35 ملکوں کا فوجی اتحاد قائم کیا گیا۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا فوجی اتحاد تھا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں کو اپنی افواج جائے وقوع پر بھیجنے کی تاکید کی گئی۔ اس جنگ میں کویت اور سعودی عرب نے 32 ارب امریکی ڈالر ادا کیے۔ 3 لاکھ امریکی فوجیوں کی سعودی عرب کی سرزمین پر قدم کو اسامہ بن لادم نے توہین آمیز قرار دیا۔ اب تک لادن سعودی عرب کے شہری تھے اور وہیں موجود تھے۔ اس سے قبل 1980ء کے عشرے میں اسامہ بن لادن مشہور عرب عالم دین شیخ عبد اللہ عزام (Sheikh Abdullah Azzam)  کی تحریک پر اپنی تمام خاندانی دولت اور عیش و آرام کی زندگی ترک کر کے جہاد کے لیے افغانستان آ گئے۔  اس وقت امریکا میں انہیں جنگی ہیرو کے طور پر شہرت دی جاتی تھی۔ مجاہدین کے ہاتھوں روس کی شکست کے بعد جب مجاہدین کی قیادت افغانستان میں جھگڑ پڑی تو اسامہ لادن مایوس ہو کر واپس سعودی عرب آ گئے۔  اس دوران صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اور کویت پر قبضہ امریکا کی ایک ایسی چال تھی جس کے ذریعے امریکا نے خلیج میں داخلہ حاصل کیا کیونکہ عراق کی اس جارحیت کو خلیج کے عرب ممالک نے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کیا۔  چنانچہ شاہ فہد کی دعوت پر امریکا مقدس سرزمین میں داخل ہو گیا۔

اسامہ بن لادن نے امریکی فوجیوں کی آمد کی شدید مخالفت کی۔ شاہ فہد کو تجویز دی کہ عراق کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک اسلامی فورس تشکیل دی جائے لیکن شاہ فہد نے اس مشورے کو یکسر نظرانداز کر کے امریکیوں کو مدد کی اپیل کر دی جس کے باعث شاہی خاندان اور اسامہ کے درمیان تلخی پیدا ہوئی اور اسامہ بن لادن کو اپنا ملک چھوڑ کر سوڈان جانا پڑا۔  سعودی عرب نے اسامہ بن لادن کی شہریت بھی منسوخ کر دی۔ اسامہ بن لادن نے سوڈان میں بھی عرب نوجوانوں میں تحریک پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے رابطے قائم رکھے۔ سوڈانی حکومت کو اسامہ بن لادن کی سوڈان میں موجودگی پر شدید امریکی دبائو کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اسی دوران طالبان نے افغانستان کے 60 فیصد علاقے میں اپنے قدم جما لیے اور ایک مستحکم حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسامہ افغانستان چلے آئے جہاں طالبان کے امیر ملا محمد عمر کی جانب سے انہیں امارات اسلامیہ افغانستان میں سرکاری پناہ حاصل ہو گئی۔  اب اسامہ نے اپنی تنظیم القاعدہ کو دوبارہ منظم کیا۔  1997 میں امریکی صدر بل کلنٹن نے طالبان پر اسامہ کو حوالے کرنے کے لیے دبائو ڈالنا شروع کیا مگر طالبان نے امریکا کے کسی دبائو میں آنے سے انکار کر دیا اور اپنے مہمان کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا جس کے بعد طالبان اور امریکا میں ٹھن گئی۔  1998 میں امریکا نے افغانستان اور سوڈان پر کروز میزائل سے حملے کیے۔  اس میں دعوی کیا گیا کہ یہ حملے اسامہ بن لادن کے کیمپ کو نشانہ بنانے اور اسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے کیے گئے تھے لیکن ان حملوں سے اسامہ بن لادن انتہائی مقبول ہوئے اور انہیں امریکی جارحیت کے سامنے واحد مدمقابل کے طور پر جانا جانے لگا۔

11 ستمبر 2001ء جس کو نائن الیون کے طور پر مشہور کیا گیا اس کے محض ایک گھنٹے بعد ہی امریکا نے اس کا الزام ہزاروں میل دور بیٹھے اسامہ بن لادن پر لگا دیا۔ اسامہ بن لادن نے اس واقعے میں ملوث ہونے سے واضح انکار کیا۔ امریکا نے اس واقعے سے ساری دنیا کی ہمدردی سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی اور محض ایک ماہ کے اندر اقوام متحدہ کی منظوری کے بعد 40 دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر دنیا کے کمزور ترین اور پسماندہ ترین ملک افغانستان پر دھاوا بول دیا۔ حالانکہ نائن الیون میں افغانستان کا ایک شہری بھی ملوث نہ ہونے کا اعتراف موجود تھا اور ہے۔ افغانستان میں کارپٹ بمباری کرنے اور تباہی پھیلانے کے باوجود امریکی حکومت اسامہ بن لادن کی گرفتاری یا قتل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اسامہ بن لادن کی زندگی کی طرح موت بھی ساری دنیا کے لیے ایک معمہ ہی بنی رہی۔ آخر امریکی حکومت نے اس معمے کو سر بہمہر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یکم مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں نے ایک آپریشن کیا اور اسامہ بن لادن کو مارنے اور اس کی لاش ساتھ لے جانے کی خبر جاری کی۔ اسامہ بن لادن کی لاش سمندر میں بہا دینے کا اعلان کیا مگر اسامہ بن لادن کی لاش کی تصویر کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔ مشہور امریکی صحافی سیمور ہرش (Seymour Hersh) نے اسامہ کی اس حملے میں موت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی روداد جھوٹ پر مبنی ہے۔ سیمور ہرش (Seymour Hersh)  کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن فوج اور آئی ایس آئی کی مرضی اور پیشگی منظوری سے ہوا تھا۔  اس وقت فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا تھے۔ سیمور ہرش (Seymour Hersh)  کے مطابق ان دونوں میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے عوام کے سامنے اعتراف کر سکیں جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری اس آپریشن پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ایک دوسرے کو اور امریکی حکام کو مبارکباد دے رہے تھے۔ سیمور ہرش (Seymour Hersh)  کی کئی باتیں واقعی قابل غور تھیں۔ پہلی یہ کہ اگر کیانی اور پاشا ایک گھنٹے کے اس آپریشن سے واقعی لاعلم تھے تو یہ بہت ہی خطرناک بات تھی اور اس پر بھی یہ کہ اگر علم ہونے پر بھی کیانی صاحب نے صرف اِدھر ادھر فون گھمانے پر ہی اکتفا کیا۔ فضائیہ کو حرکت کا حکم نہ دیا؟ پھر ایبٹ آباد کے اس علاقے میں بلیک آئوٹ یعنی بجلی کی مکمل بندش کا مقصد کیا تھا؟ یہ سوال ایسے ہیں کہ اس کا جواب نہ پاکستانی قوم کو ملا اور نہ ہی آزاد میڈیا ڈھونڈ پایا۔ سوالات تو اور بھی ہیں خاص طور سے 9/11 کے بارے میں جن کے جواب ڈھونڈ لانے کی کسی میں ہمت ہی نہیں ہے۔  مثلا 9/11 میں طیارے دو ٹاوروں سے ٹکرائے لیکن تیسرا ٹاور بھی تباہ ہو گیا حالانکہ اس سے کوئی طیارہ نہیں ٹکرایا۔  ماہرین کہتے ہیں کہ سرکاری بیان کہ تیسرا ٹاور آگ لگنے سے گرا غلط ہے۔  یہ ٹاور اسٹیل کے فریم سے بنا ہوا تھا اور یہ دنیا کی اسٹیل کے فریم والی پہلی بلڈنگ ہے جو آگ سے گر گئی؟ پھر حادثے کی جگہ سے طیارے یا مسافروں کی باقیات بالکل نہیں ملیں۔

امریکی بیان یہ ہے کہ جہاز ٹکراتے ہی بھاپ بن کر سب کچھ اڑ گیا حالانکہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔  امریکی ڈیفنس سیکرٹری ڈونلڈ رمز فیلڈ نے 10 ستمبر 2001ء میں اعتراف کیا تھا کہ ڈیفنس بجٹ میں 2300 ارب کا گھپلا موجود ہے جس کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔  اگلے دن صبح طیارے پنٹاگون کی عمارت کے عین اسی حصے سے جا ٹکرائے جہاں بجٹ اینا لسٹ کے دفاتر تھے۔  پھر طیارے کی ایک پر سے دوسرے پر تک کی چوڑائی 38 میٹر تھی مگر ٹکر کے بعد پنٹاگون کی بلڈنگ میں ہونے والا سوراخ صرف 6 میٹر چوڑا تھا۔  یہ بھی عجیب اتفاق تھا کہ جب اغوا شدہ طیارے اپنے اہداف پر ٹکرانے والے تھے اس وقت پنٹاگون نے ایک وار گیم چلایا ہوا تھا جس کی وجہ سے ائیرٹریفک کنٹرولرز کو اپنے ریڈار اسکرین پر مغالطہ ہوتا رہا۔  تاریخ کے یہ دو اتفاق حیران کن ہیں کہ پاکستانی ریڈار ایبٹ آباد پر حملہ آور امریکی طیارے نہ دیکھ سکے اور امریکی ریڈار نائن الیون کے دن اغوا شدہ حملہ کرنے والے طیارے نہ دیکھ سکے۔

No comments.

Leave a Reply