طالبان نے کابل فتح کے خوف حد سے زیادہ ہیں: زلمے خلیل زاد

افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی، زلمے خلیل زاد

افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی، زلمے خلیل زاد

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی، زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ ایسی پیش گوئیاں غیر ضروری طور پر منفی ہیں کہ جب امریکی اور اتحادی افواج نکل جائیں گی تو طالبان جلد ہی افغان سیکیورٹی فورسز کو شکست دے کر کابل پر قبضہ کر لیں گے۔ ایوان نمائندگان کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے سامنے پیر کے روز ہونے والی سماعت میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ افغان فورسز کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے اور طالبان کے قابض ہونے کے بارے میں بیانات غلط ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس  (اے پی) کا کہنا ہے کہ ستمبر تک ساری افواج کے مکمل انخلا سے متعلق صدر جو بائیڈن کے اعلان پر کمیٹی کو سخت تشویش ہے کہ اس سے افغانستان میں انتشار بڑھ جائے گا اور خانہ جنگی میں شدت آئے گی۔ اے پی کے مطابق کہ صرف قانون ساز ہی اس تشویش کا شکار نہیں بلکہ امریکی فوج کے سینئر لیڈروں نے بھی طالبان کا راستہ روکنے کیلئے امریکی افواج کی وہاں موجودگی کی حمایت کی ہے۔ چیئرمین آف دی جائنٹ چیفس آف سٹاف، جنرل مارک ملے (Gen. Mark Milley) نے بھی اس امید کا اظہار کیا ہے کہ افغان فورسز صرف اس وقت پوری طرح کھڑی رہ سکتی ہیں جب امریکہ ان کی کسی نہ کسی طرح کی امداد جاری رکھے گا۔ تاہم انہوں نے رپورٹروں کو بتایا تھا کہ یکم مئی کے بعد ان کے سامنے کئی طرح کے منظر نامے ہیں۔

انخلا کے سخت ناقد، ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن رکن، مائیکل مک کول (Michael McCaul)  کا کہنا تھا کہ اس بات کا صفر امکان ہے کہ طالبان، ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ فروری 2020 ء میں کئے گئے اپنے وعدے نبھائیں گے جس میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ امن مذاکرات میں شامل ہوں گے اور القاعدہ کیلئے ہر طرح کی حمایت اور تعاون ختم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی بات یقینی لگتی ہے طالبان ملک پر قابض ہو جائیں گے اور ملک دوبارہ 9 ستمبر 2001 ء والی صورت حال میں چلا جائے گا۔  مک کول (Michael McCaul)  کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کے اعلان کے بعد، طالبان نے اپنے حملوں میں شدت پیدا کی ہے اور ان کے علاقے اور چھانیوں پر قبضہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں فوجی موجودگی کے بغیر، امریکہ انہیں موقع دے رہا ہے کہ وہ القاعدہ جیسے دہشتگرد گروپ سے اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنائیں جو دوبارہ اس ملک سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملے کرنے کا خواہاں ہے۔

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان کو دو بالکل مختلف مستقبل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے کہ یا تو وہ امن کا راستہ اختیار کرے اور اپنی تحریک کو ایک سیاسی تحریک میں تبدیل کرے اور اپنے ملک کا حصہ بنے اور یا پھر وہ عسکری قوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرے اور پابندیوں اور تنہائی کا شکار ہو جائے۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس پہلا انتخاب یہ ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے امن کا راستہ اختیار کریں، اور ایک متشدد بغاوت میں تبدیلی لاتے ہوئے اسے ایک سیاسی تحریک بنائیں اور ایک ایسے ملک کا حصہ بنیں، جسے عالمی برادری میں احترام دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرا متبادل یہ ہے کہ اگر طالبان نے عسکری قوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کا راستہ اختیار کیا تو پھر ان پر پابندیاں عائد ہوں گی، وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو جائیں گے، انہیں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مخالفت کا سامنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سیکیورٹی فورسز کیلئے ہماری اور ہمارے اتحادیوں کی امداد جاری رہے گی۔ تاہم بعد میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوجی براہ راست افغان افواج کی مدد نہیں کر پائیں گے۔

کمیٹی کے چیئرمین گریگوری میکس (Gregory Max) کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال پر کہ کیا طالبان کی جانب سے وعدے پورے نہ کئے جانے کی صورت میں افغانستان میں حاصل کی گئی سماجی اور سیاسی کامیابیوں کا پہیہ واپس مڑے گا۔ اس کے جواب میں خلیل زاد کا کہنا تھا طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ ان معاملات پر وہ جو بھی رویہ اختیار کریں گے، وہی اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا وہ مستقبل کی حکومت کا حصہ ہوں گے اور کیا افغانستان کی کو عالمی امداد ملے گی۔ خلیل زاد نے کہا کہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ عالمی امداد کے خواہاں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں قبول کیا جائے، ان پر سے پابندیاں ہٹائی جائیں، اور انہیں تنہا نہ کیا جائے۔ خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان نے انہیں خود بتایا ہے کہ ان کے نظریات کا ارتقا ہوا ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے تاریخی ورثے کی حفاظت کریں گے، حالانکہ انہوں نے افغانستان کے ایک اہم تاریخی ورثے بامیان بدھا کے مجسموں کو توڑ دیا تھا۔ زلمے کا کہنا تھا طالبان نے خود ان سے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق ہیں، جن میں سیاست میں شریک ہونا، تعلیم حاصل کرنا اور ملازمت کرنا شامل ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ طالبان کے بیانات سے تو یہی اشارہ ملتا ہے کہ وہ سبق سیکھ چکے ہیں، جیسا کہ ان میں تبدیلی آئی ہے، لیکن امریکہ ان کے کہے ہوئے پر یقین نہیں کرے گا۔ یہ دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔ کیا کوئی سیاسی تصفیہ ہوتا ہے۔ خلیل زاد کا کہنا تھا کہ مستقبل میں امریکہ کی امداد یا تعلقات کا انحصار طالبان کے طرز عمل پر ہو گا۔

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ امریکی افواج کے انخلا میں طالبان نے کسی حقیقی انداز میں مداخلت نہیں کی اور امید کی جا رہی ہے کہ وہ اس رویے کو جاری رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ایسے معاہدوں کیلئے سفارتی کوششیں جاری ہیں جن کے ذریعے امریکہ کی انسداد دہشتگردی سے متعلق افواج کو افغانستان کے قریب ایسی پوزیشن میں رکھا جائے تاکہ مستقبل کے کسی خطرے سے نمٹنے فوری طور پر کاروائی کر سکیں۔ زلمے خلیل زاد سے بار بار افغان کنٹریکٹروں کے تحفظ اور انہیں خصوصی ویزے جاری کرنے کے بارے میں پوچھا گیا۔  جس کے جواب میں خلیل زاد کا کہنا تھا کہ وہ مزید معلومات حاصل کر کے کمیٹی ارکان کو فراہم کریں گے۔

کمیٹی کے رینکنگ رکن، مائیکل مک کول (Michael McCaul)   نے بھی اپنے ابتدائی بیان میں ان افغانوں کا ذکر کیا جنہوں نے اپنی ذات کو لاحق خطرات سے بالاتر ہو کر امریکی فوج کی مدد کی۔ انہوں نے ان افغانوں کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا ان کو وہاں سے نکالنا ہماری اخلاقی ذمہ داری، اور ہمیں ایسا ان کے طالبان کے ہاتھوں ہلاکت سے پہلے کرنا ہو گا۔ پاکستان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، جس سے سفارتی حل اور پاکستان کے کردار کی جانب بڑھا جاتا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کی ایک خصوصی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان ایک طویل مدتی یا لمبی جنگ کی جانب جاتا ہے، تو پھر پاکستان بھی اس سے متاثر ہو گا اور پاکستان پر اس کا الزام آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے اور وہ امن کے قیام ہی کو سب سے بہتر قرار دیتے ہیں۔ خلیل زاد کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امارات کی کبھی نہ واپسی والی دستاویز پر دستخط کئے ہیں۔ انہوں نے اپنا نام اس دستاویز میں شامل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی عسکریت پسند قوت قبضہ نہیں کرے گی۔ خلیل زاد کا کہنا تھا کہ کہ انہیں امید بھی ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کریں گے، اور ہم نے ان کی افغانستان سے حالیہ بات چیت کو بہت حوصلہ افزا پایا ہے۔

No comments.

Leave a Reply