امریکی انخلا سے قبل ہی افغان فضائیہ کی ناکامی کے حوالے سے خبردار کیے جانے کا انکشاف

امریکی حکام کو خبردار کیا گیا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد افغان فضائیہ کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی— فائل فوٹو

امریکی حکام کو خبردار کیا گیا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد افغان فضائیہ کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی— فائل فوٹو

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے گزشتہ سال افغانستان سے امریکی انخلا کے اعلان سے چند ماہ قبل امریکا کے نگران ادارے نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکا نے امداد اور تربیت فراہم نہ کی تو افغان فضائیہ ڈھیر ہو جائے گی۔ امریکا خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار) جان سوپکو کی رپورٹ منظر عام پر آئی جسے گزشتہ سال جنوری میں محکمہ دفاع کو پیش کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں زور دیا گیا تھا کہ امریکی حکام کو خبردار کیا گیا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد افغان فضائیہ کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ ان میں اتنی صلاحیت نہیں ہے۔ رپورٹ میں خصوصا اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی امریکا، افغان سپورٹ اسٹاف کو تربیت دینے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے فضائیہ امریکی ٹھیکیداروں کے بغیر اپنے طیاروں کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہی۔

طالبان کے خلاف 20 سالہ جنگ کے دوران امریکی فضائی امداد افغان فوج کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی تھی، امریکی فضائیہ کی عدم موجودگی اور افغان فضائیہ میں صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ہی امریکی انخلا کے بعد طالبان نے باآسانی افغانستان کا اقتدار سنبھال لیا۔ انسپکٹر جنرل کے دفتر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ سیگار کی رپورٹس شاذونادر ہی کلاسیفائیڈ کی جاتی ہیں لیکن جب ایسا ہوتا ہے تو پینٹاگون کی جانب سے دو ماہ سے کم عرصے میں ڈی۔کلسیفائیڈ ورژن جاری کیا جاتا ہے۔ آئی جی دفتر نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ اس مخصوص رپورٹ کو ظاہر کرنے میں محکمہ دفاع نے ایک سال سے زائد وقت کیوں لیا یا طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے پانچ ماہ بعد اب ایسا کیوں کیا۔ سیگار نے 2008 ء میں دفتر کے قیام کے بعد سے افغانستان میں واشنگٹن کے اخراجات اور پیشرفت کا سراغ لگایا اور اسے دستاویزی شکل دی، افغان فوج کے اندر بدعنوانی، افغان اور امریکی قیادت کی ناکامیوں اور کمزوریوں کو دستاویزی شکل دیتے ہوئے پے در پے رپورٹس جاری کیں اور امور میں بہتری کے لیے سفارشات بھی پیش کیں۔

2001 سے 2021 ء تک جاری رہنے والی اس طویل جنگ کے دوران امریکا نے افغانستان میں تعمیرنو پر 145 ارب ڈالر سے زائد اور اپنی فوجی پر تقریبا 1 ٹریلین ڈالر خرچ کیے، افغان فوجی دستوں پر بھی اربوں ڈالر خرچ ہوئے۔ بائیڈن نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد نیٹو کے 7500 فوجیوں کے ساتھ امریکا کے بقیہ 3500 فوجی بھی وہاں سے چلے جائیں گے، اس اعلان کے بعد افغان دفاعی افواج تیزی سے ختم ہونا شروع گئی تھیں۔ طالبان نے ملک پر بہت تیزی سے قبضہ کیا اور کئی علاقوں میں انہیں لڑنا تک نہیں پڑا کیونکہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے ساتھ ساتھ طالبان کے حوف کے پیش نظر افغان فوجی فرار ہو گئے تھے۔ امریکی حمایت یافتہ صدر اشرف غنی دارالحکومت کابل سے فرار ہوئے تو طالبان 15 اگست کو کابل میں داخل ہو گئے، اگست کے آخر تک امریکا نے انخلا مکمل کر لیا۔ اس واقعے سے چند ماہ قبل افغان حکام نے خبردار کیا تھا کہ فضائیہ اس قابل نہیں کہ امداد کے بغیر اپنی بقا کی جنگ لڑ سکے، فوجی طیاروں کا استعمال زیادہ کیا گیا اور اس کی دیکھ بھال کم کی گئی۔ امریکی اتحادی اور شمالی افغانستان کے مشہور جنگجو عطا نور محمد نے کہا کہ زیادہ تر طیارے زمین پر واپس آ چکے ہیں، وہ اڑ نہیں سکتے اور ان میں سے اکثر گولہ بارود سے محروم ہیں۔

سیگار کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010 ء اور 2019 ء کے درمیان امریکہ نے افغان فضائیہ اور اس کے ایلیٹ یونٹ اسپیشل مشن ونگ کی ”سپورٹ اور بہتری” پر 8.5 ارب ڈالر خرچ کیے، لیکن رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ دونوں ہی تیار نہیں ہیں اور ان فضائی بیڑوں کی دیکھ بھال کرنے والے سینکڑوں امریکی کنٹریکٹرز کو نہ ہٹانے کا انتباہ بھی دیا تھا۔رپورٹ کے مطابق نیٹو اور امریکا نے 2019 ء میں فضائیہ کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرتے ہوئے اس کی تعمیر کے بجائے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ یہ طویل مدت تک مقابلہ کرنے کے اہل رہے، لیکن سوپکو نے ان کی کوششوں کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان فضائیہ خود کو آزادی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے درکار اہل اہلکار حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اور نیٹو فوجی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ امریکی امداد سے چلنے والے کنٹریکٹرز نے پائلٹوں کی تربیت پر توجہ مرکوز کی تھی لیکن انہوں نے افغانستان کی فضائیہ کے 86 فیصد اہلکاروں بشمول اس کے معاون عملے کی تربیت کو ترجیح نہیں دی تھی۔

No comments.

Leave a Reply