باپردہ بھارتی مسلم طالبات پر تعلیم کے دروازے بند

باحجاب مسلمان طالبات کالج کی سیڑھیوں، راہداریوں اور برآمدوں میں شدید سردی میں زمین پر بیٹھی مطالعہ کر ہی ہے

باحجاب مسلمان طالبات کالج کی سیڑھیوں، راہداریوں اور برآمدوں میں شدید سردی میں زمین پر بیٹھی مطالعہ کر ہی ہے

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

بھارتی ریاست کرناٹک کے سرکاری کالج میں باپردہ مسلم طالبات کو کلاسسز ایٹنڈ کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ ریاستی بی جے پی سرکار کے آشیرواد سے کالج ایڈمنسٹریشن نے باحجاب طالبات کے کلاس روم میں داخلہ پر نہ صرف پابندی عائد کر دی ہے بلکہ کالج احاطہ میں مسلح پولیس بھی تعینات کر دی گئی ہے اور ہندو تنظیموں کے غنڈہ عناصر کو کالج میں داخلے اور زعفرانی مفلر پہننے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے ۔ جس پر مسلمان طالبات کے تعلیمی سال ضائع ہونے سمیت سالانہ امتحان میں غیر حاضر ظاہر کرنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ مقامی مسلمان طالبات کے خاندانی ذرائع اور غیر جانبدا میڈیا نمائندوں نے بتایا ہے کہ اڈپی (Udupi)  ضلع کے کالج میں باپردہ مسلم طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کئے جا چکے ہیں۔ ان طالبات کو تین ہفتوں میں ایک بھی لیکچر یا پریکٹیل میں شریک نہیں ہونے دیا گیا، جس کی وجہ سے ول ان کے خاندان ذہنی اذیت اور نفساتی مسائل کا شکار ہیں۔ کالج کا دورہ کرنے والی ہیومن رائٹس تنظیم اور میڈیا نمائندوں نے دیکھا کہ باحجاب مسلمان طالبات کالج کی سیڑھیوں، راہداریوں اور برآمدوں میں شدید سردی میں زمین پر بیٹھی مطالعہ کر ہی ہے اور دوسری جانببے پردہ ہندو طالبات کلاسز میں پروفیسر اور لیکچررز سے تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔  ضلع اڈپی (Udupi)  کے سرکاری ڈی ڈی پی آئی کالج کے پرنسپل نے 21 دسمبر 2021 کو نکالے جانے والے سرکلر میں ان تمام مسلمان طالبات کو حجاب پہن  کرکالج کلاسز میں انے اور کالج کی حدود میں ”اسلام علیکم” کہنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس ضمن میں جب طالبات اور والدین نے کالج پرنسپل سے استفسار کیا تو متعصب ہندو پرنسپل نے کوئی بات کرنے سے انکار کر دیا اور کالج میں ہندو انتہاپسند تنظیموں کو دعوت دے کر بلوا لیا جنہوں نے مسلم طالبات اور والدین کو ہراساں کرنا شروع کر دیا۔

اس موقع پر صحافیوں کا کہنا تھا کہ مسلمان طالبات کی جانب سے حجاب کی اجازت کے جواب میں ہندو طلبا و طالبات نے ناصرف ان کوتشدد کی دھمکیاں دیں، بلکہ اپنے گلے  میں روایتی زعفرانی مفلر اور رومال ڈال کر کالج میں گھس گے۔ کالج میں مسلم طالبات کو اسلام علیکم کہنے اور اردو میں گفتگو سے بھی روک دیا گیا ہے۔درجنوں  مسلم طالبات نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ انہیں کلاس رومز اور لیبارٹریز میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کرے اور پریکٹیکل میں شرکت کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ کالج کی تمام مسلم طالبات تین دن سے کلاس کے باہر احتجاج کر ہی تھیں۔ لیکن پرنسپل نے اس ضمن مں کوئی رعایت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ والدین نے بتایا ہے کہ کالج پرنسپل رودر گوڑا نے کہا ہے کہ مسلم لڑکیاں کلاس میں حجاب نہیں پہن سکتیں۔ احتجاج کرنے والی طالبات نے بتایا کہ ان کے والدین پرنسپل سے مسئلہ حل کرنے کے کالج گئے لیکن کلاج پرنسپل نے انہیں جواب دینے سے انکار کر دیا۔ اڈپی کی گرلز اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا/ جی آئی او کے ایک وفد نے اڈپی ضلع کلکٹر سی کرما رائو سے بھی ملاقات کی اور درخواست کی کہ مسلمان لڑکیوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔  اگرچہ گزشتہ ہفتہ ضلع کلکٹر نے معاملہ کو حل کرنے کا دعویٰ کیا لیکن کالج کے پرنسپل نے مسلم طالبات کو کلاس رومز میں داخلہ اور پریکٹیل لینے منع کر دیا۔

ادھر کرناٹک ہی کے چک منگور کے کوپا تعلقہ کے سرکایر کالج  میں ہندو طلبا و طالبات اور مقامی ہندو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔یاد رہے کہ کرناٹک میں 2021ء میں بالخصووس مسلم مخالف پرتشدد واقعات میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔  جبکہ بی جے پی، بجرنگ دل، آر ایس ایس سمیت وی ایچ پی جیسی پرتشدد ہندو تنظیموں نے بھی مسلموں کے بنیادی حقوق پر پابندی کے لیے مظاہرے کئے ہیں۔  دکن  کرنیکل کا کہنا ہے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ حال ہی میں کرسمس کے موقع پر کئی عیسائی خاندانوں اور گرجائوں پر حملے بھی کئے گئے ہیں۔ جبکہ کرناٹک کی ریاسی حکومتی نے تبدیلی مذہب بل لا کر مسلمانوں کے خلاف ایکشن لینے کے لیے سیکیورٹی اداروں کو بھی متحرک کر دیا ہے۔ بھارتی نیوز چینل ”ٹائمز نائو”  نے بتایا کہ مسلمان طالبات کے والدین کی ضلع کلکٹر اور سینئر حکام سے ملاقات ہوئی ہے لیکن پرنسپل کی ہٹ دھرمی اور مسلم دشمنی کی وجہ سے دو ہفتوں سے زیادہ کا وقت گذر جانے کے باوجود اس معاملہ کا کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔

No comments.

Leave a Reply