مشرق وسطی میں موسمیاتی تبدیلیاں، جب پانی کی قلت ہو جائے گی

شام, 10 سال کی جنگ کے بعد پینے کا پانی 40 فیصد تک کم

شام, 10 سال کی جنگ کے بعد پینے کا پانی 40 فیصد تک کم

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

مشرق وسطیٰ میں 2021ء کا موسم گرما جتنا گرم تھا، اس سے پہلے وہاں شاید ہی کسی سال اتنی گرمی پڑی ہو۔  اس دوران درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر تک پہنچ گیا، جو اس خطے میں سال کے اس حصے کے اوسط درجہ حرارت سے 7 ڈگری زیادہ تھا۔ شدید گرمی اور ہوا سے کئی مقامات پر جنگلاتی آگ بھڑک اٹھی، خاص طور سے الجزائر میں تو یہ جنگلاتی آگ 65 افراد کی ہلاکت کا سبب بنی۔ کئی عوامل یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2021 ء کا شدید موسم گرما صرف ایک بار ہی کا واقعہ نہیں تھا بلکہ یوروپین یونین انسٹیٹیوٹ فار سکیورٹی اسٹڈیز (EUISS) کے ایک تجزیے کے مطابق موسم گرما کے مہینے پہلے سے کہیں زیادہ گرم اور خشک ہو جانے کے امکانات ہیں۔ متعدد موسمیاتی سائنسی مطالعات پر مشتمل ‘عرب کلائمیٹ فیوچرز کی ایک رپورٹ نے مراکش سے عمان تک پھیلی ہوئی ریاستوں کے مستقبل کی جو موسمیاتی تصویر کھینچی ہے، وہ بہت پریشان کر دینے والی ہے۔ یہ ممالک پہلے ہی سے شدید ماحولیاتی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں تاہم مستقبل میں یہ اور بھی خراب موسموں سے متاثر ہوں گے اور دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں مشرق وسطی اس صورتحال سے بہت زیادہ متاثر ہو گا۔

مشرق وسطی کے خطے کا 80 فیصد علاقہ صحرائوں یا صحرا نما علاقوں پر مشتمل ہے اور وہ اپنے ان علاقوں کو دیگر کم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔ اس خطے نے 1850ء سے اب تک اگرچہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے عالمی سطح پر اخراج میں صرف تین فیصد حصہ ڈالا ہے، تاہم یہ خطہ عالمی حدت کے اثرات کو بہت واضح طور پر محسوس کرتا ہے۔  MENA یا مڈل ایسٹ اینڈ نارتھ افریقہ نامی گروپ میں شامل ریاستوں، مثال کے طور پر الجزائر، مصر، بحرین، جبوتی، ایران، عراق، اسرائیل، یمن، اردن، قطر، کویت، لبنان، لیبیا، مراکش، عمان، سعودی عرب، شام، تیونس، متحدہ عرب امارات، مغربی اردن اور غزہ میں 2040ء سے 2059ء کے درمیان درجہ حرارت میں 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو گا جبکہ ان ممالک کے چند علاقوں میں تو یہ اضافہ 3.3 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ سکتا ہے۔

فلورنس گاب (Florence Gaub)  یوروپین یونین انسٹیٹیوٹ فار سکیورٹی اسٹڈیز کی قائم مقام ڈائریکٹر ہیں، جو اس مطالعاتی رپورٹ کے دو مصنفین میں سے ایک ہیں۔ ان کے خیال میں یہ تبدیلیاں ناگزیر نہیں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے کچھ رجحانات سے بچا جا سکتا ہے۔ فلورنس گاب (Florence Gaub)  نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”مثال کے طور پر مصر جیسا ملک ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا انحصار اب اس بات پر ہے کہ وہاں کی حکومت کیا کرتی ہے۔ اگر حالات سازگار رہے، تو وہاں 20 تا 40 فیصد کم بارش ہو گی اور یہ ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔ لیکن بدترین صورت حال میں وہاں بارشوں میں 60 فیصد تک کی کمی ہو سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دیگر ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ مثلا تیونس میں 2030ء تک موسمیاتی تبدیلیوں کے علاوہ بھی ملکی آبادی کو کافی پانی دستیاب نہیں ہو گا۔ اس کا تعلق ملکی آبادی میں اضافے سے ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس خطے کے بیشتر ممالک آلودہ پانی کی ری سائیکلنگ کے عمل میں بہت پیچھے ہیں۔ مشرق وسطی کے ممالک میں زیادہ تر پانی زراعت کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ مشرق وسطی کے ممالک کے برعکس یورپی ممالک میں صنعتی شعبے میں بہت زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے، بلکہ بہت سا پانی ری سائیکل بھی ہوتا ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق یورپ کے مقابلے میں مشرق وسطی کا خطہ بہت زیادہ خشک سالی کا شکار ہے۔ مشرق وسطی میں سالانہ 173 لٹر فی مربع میٹر پانی برستا ہے جبکہ یورپ میں یہ اوسط 756 لٹر فی مربع میٹر بنتی ہے۔ 2011  میں عرب اسپرنگ نے واضح کر دیا تھا کہ پانی کی قلت سے کس طرح کے سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔  عرب اسپرنگ سے پانچ سال پہلے یہ خطہ گزشتہ 100 برسوں کی بدترین خشک سالی کا شکار رہا تھا اور اس کا نتیجہ بے روزگاری میں غیر معمولی اضافے کی صورت میں سامنے آیا تھا، خاص طور سے زرعی شعبے سے منسلک باشندوں کے لیے۔ اسی وجہ سے دیہی علاقوں کے رہائشی بہت سے باشندے شہروں کی طرف کوچ کر گئے تھے اور ساتھ ہی اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بھی بہت اضافہ ہو گیا تھا۔ شام، جو ہنوز پانی کی قلت یا پھر خشک سالی کا سامنا کر رہا ہے، ان حالات سے بری طرح متاثر ہوا۔ شام کی کل آبادی کا پانچواں حصہ اپنے آمدنی کے ذرائع کھو بیٹھا تھا۔ اس ملک میں غربت اور وہاں کے حکمران بشار الاسد کے ظالمانہ فیصلوں نے کئی سال پہلے ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا، جس کے شعلے ابھی تک بھڑک رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اس مطالعاتی رپورٹ سے یہ پتا بھی چلا ہے کہ زمین کی حدت اور گرمی میں اضافے سے نہ صرف پانی کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہے بلکہ پانی کا معیار بھی مزید خراب تر ہو جانے کا شدید اندیشہ ہے۔انتہائی نوعیت کے موسمیاتی حادثات اور واقعات کے سبب میٹھے پانی میں نمکیات اور آلودگی کے اضافے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ خشک سالی بھی پانی کے معیار پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے کیونکہ پانی کا بہائو رک جائے تو اس کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے اور اس میں آکسیجن کی سطح بھی کم ہونے لگتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دریائوں میں پانی جتنا بھی ہو، اس میں بھی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔جنگ اور دہشتگردی سے تباہ حال عراق میں آبپاشی کے لیے استعمال ہونے والے پانی میں آلودگی کی سطح عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی طرف سے تجویز کردہ اوسط کے تین گنا سے بھی زیادہ تھی۔ تحقیق کے مطابق 1980ء کے عشرے سے لے کر 2009ء کے درمیان تک دریائے فرات کے پانی میں شامل ہو جانے والے مادوں کی مقدار میں تین گنا اضافہ ہوا۔ ان کیمیائی مادوں اور نمکیات میں کیلشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، کلورین اور سلفیٹ کے علاوہ کیڑے مار ادویات کی باقیات بھی شامل تھیں۔

No comments.

Leave a Reply