بھارت اور کشمیر میں مسلم نسل کشی کا خطرہ

بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے الرٹ جاری

بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے الرٹ جاری

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

دنیا کے مختلف علاقوں میں نسل کشی کے خطرات کا ادراک کرنے والے ادارے جنیو سائیڈ واچ کے بانی ڈاکٹر گریکوری اسٹینٹسن (Gregory Stanton)  نے انڈین امریکن مسلم کونسل کی جانب سے منعقدہ کال جینو سائیڈ آف انڈین مسلمز سے کانگریشنل بریفنگ کے دوران کچھ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے الرٹ جاری کیا تھا، جب گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو مودی گجرات کا وزیر اعلی تھا اور اس نے مسلمانوں کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔  مودی نے اپنی سیاست کو وسیع کرنے کے لیے مسلم مخالف اور اسلاموفوبیا کی بیان بازی کا استعمال کیا۔  اب بھی مودی دو طریقوں سے یہی مشق دہرا سکتا ہے۔ ایک کشمیر کی 2019 ء میں خصوصی حیثیت ختم کی گئی،  جس کا مقصد وادی کو جہاں اس وقت مسلمانوں کی اکثریت ہے ہندو اکثریتی ریاست بنانا تھا۔  دوسرا یہ کہ بھارت میں شہریت ترمیمی قانون لایا گیا جس کے تحت افغانستان، پاکستان اور بنگلا دیش سے نقل مکانی کرنے والوں کو شہریت دی گئی جبکہ صرف ایک گروپ یعنی مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا۔  اس قانون کا مقصد بنگلا دیش سے نقل مکانی کر کے آسام میں بسنے والے 30 لاکھ کے قریب مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا۔

میانمر کی حکومت نے بھی پہلے قانون سازی کے ذریعے مسلمانوں کی شہریت ختم کی اس کے بعد مسلمانوں کو تشدد اور نسل کشی کے ذریعے ملک بدر کر دیا۔  جنیو سائیڈ واچ کے بانی ڈاکٹر گریکوری (Gregory Stanton)نے 1994ء میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کی پیشگوئی بہت پہلے کی تھی۔  جنیو سائیڈ واچ کی بنیاد 1999 ء میں رکھی گئی تھی اور اس کا مقصد دنیا بھر میں نسل کشی کے واقعات اور مہمات کو روکنا تھا۔  ڈاکٹر گریکوری (Gregory Stanton) کی طرف سے بھارت اور مسلمانوں کی نسل کشی کے خطرات کی موجودگی کا اقرار دنیا کے الارم ہے۔ نسل کشی کے واقعات اچانک رونما نہیں ہوتے کیونکہ ان واحد میں انسانی آنکھ میں یوں خون نہیں اترتا کہ وہ اپنے ہمسایوں، جاننے والوں، محسنوں سے نظریں پھیر کر نیزے اور چھرے لے کر ان پر دوڑ پڑیں۔ حقیقت میں یہ نفرت کا ایک بیج ہوتا ہے جسے ایک دن ڈالا جاتا ہے پھر وہ زمین کی تہہ میں نمو پاتا چلا جاتا ہے یہاں تک جب یہ درخت بنتا ہے تو اس وقت نفرت ایک رویے سے بڑھ کر ایک جنون اور خون بہانا ایک شوق اور مشغلہ بن چکا ہوتا ہے۔  پھر انسان اپنے اصل مقام انسانیت سے نیچے گر چو پائے اور وحشی کی قبا اور کھال پہن کر اپنے ہمسایوں، جاننے والوں، ایک کھیل کے میدان میں کھیلنے والوں اور ایک دفتر میں کام کرنے والوں کو بھی نہیں بخشتا۔

اس وقت انسان کا مذہب بھی نفرت ہوتی ہے اور قومیت بھی نفرت ہوتی ہے۔ اس وحشت کے پیچھے برسوں کی ذہن سازی ہوتی ہے۔ پھر ریاست بھی اس جنونیت کی معاون بن جائے تو وحشت کا رقص اپنا بھرپور رنگ جماتا ہے۔ گجرات میں یہی ہوا وہاں نریندر مودی کو اپنی سیاسی بنیاد مضبوط کرنے کی ضرورت تھی اس کے لیے مودی نے پہلے سے مسلمان مخالف ہندوتوا ذہنیت کو ہوا دینا اور سرپرستی کرنا شروع کی۔ یہاں تک کہ گجرات میں 5 ہزار افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا جن میں ایک رکن پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔ نریندر مودی نے اس رقص ابلیس کا تماشا بہت سنگدلی اور شقاوت قلبی کے ساتھ دیکھا۔ اب یہی مودی بھارت کا وزیر اعظم ہے۔ مودی نے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا ہر حربہ اپنائے رکھا ہے۔ پہلا وار کشمیریوں پر کیا گیا اور یہ دنیا کے ٹیسٹ تھا کہ وہ بھارت کے اس قدم پر ردعمل ظاہر کرتی ہے یا خاموشی اختیار کرتی ہے۔ دنیا نے اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ پانچ اگست کے فیصلے کے طویل المیعاد مقاصد اور اس کے پیچھے ذہن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ دنیا کی اس بے حسی نے مودی کے حوصلے بڑھا دیا اس نے پورے بھارت کو کشمیر بنانے کا راستہ اختیار کیا۔ شہریت کا ترمیمی قانون متعارف کرانے کے ذریعے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کشمیر کے معاملے سے لاتعلقی اختیار کرنے والے بھارتی مسلمان رہنمائوں کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب شہریت ترمیمی قانون کی دوربین میں انہیں اپنا مستقبل تاریک اور کربناک دکھائی دیا۔ مسلمانوں نے جا بجا احتجاج کیا۔

دہلی کے شاہین باغ میں خواتین نے احتجاجی کیمپ لگایا مگر مودی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور ایک روز اس کیمپ پر انتہاپسندوں نے حملہ کیا۔ مسلمانوں کی املاک جلائی گئیں اور طاقت کے زور پر احتجاج ختم کرایا گیا۔ گجرات کی طرح ان کارروائیوں میں بھی پولیس نے بلوائیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے بجائے تماشائی بننے کا فیصلہ کیا۔ کشمیر تو پہلے ہی بھارت کی مٹھی میں بند ہے اور پانچ اگست کے فیصلے کا واضح مقصد آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے۔ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا میانمر اسٹائل اپنایا جا سکتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پورے عروج پر ہے۔ دھرم سنسد کے نام سے منعقدہ سیمینار میں تو مقررین نے لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت کو مسلمانوں کا میانمر بنانے کی بات کی۔

اب جنیو سائیڈ واچ کے سربراہ نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجائی ہے تو اس کے پیچھے وہ اسباب و عوامل ہیں جو ایسے واقعات کا سبب بنتے ہیں۔ عوامی ذہن نفرت سے بھر دیے گئے ہیں۔ انتظامیہ کے ذہن مسلمانوں کے خلاف اور فرقہ واریت سے لبریز ہیں۔ حکومت کا سربراہ پوری طرح اس رویے کی سرپرستی کر رہا ہے اور ریاست قوانین بنا کر اپنے ممکنہ ہدف کو پہلے ہی کمزور پوزیشن میں دھکیل چکی ہے۔ اس کے بعد بس نفرت کی ایک چنگاری اڑنے کی دیر رہ جاتی ہے اور نسل کشی کی روح فرسا کہانیاں جنم لینا شروع ہوتی ہیں۔

No comments.

Leave a Reply