اگر حکومت سے باہر نکل آیا تو زیادہ خطرناک ہوں گا، وزیر اعظم عمران خان

وزیر اعظم عمران خان

وزیر اعظم عمران خان

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر میں حکومت سے باہر نکل گیا تو آپ کے لیے زیادہ خطرناک ہوں گا اور میں سڑکوں پر نکل آیا تو آپ کے لیے چھپنے کی جگہ نہیں ہو گی کیونکہ لوگ آپ کو پہچان چکے ہیں۔انہوں نے یہ بات ”آپ کا وزیر ِاعظم آپ کے ساتھ” نامی سلسلے میں میں عوام سے ٹیلیفون کالز کے ذریعے براہِ راست بات کرتے ہوئے کہی۔ وزیر اعظم عمران خان کا قوم سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کافی وقت سے میں آپ سے بات نہیں کر سکا تھا، اصولاً تو مجھے پارلیمنٹ میں بات کرنی چاہیے لیکن بدقسمتی سے پارلیمنٹ میں اپوزیشن بات نہیں کرنے دیتی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں این آر او کے متلاشی لوگ بیٹھے ہیں، اگر آپ ان کے مطالبات پورے نہ کریں تو وہ آپ کو بات نہیں کرنے دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک عظیم خواب کا نام ہے، علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا کہ کوئی ایسی ریاست بنے جس کو دیکھ کر دنیا کو پتا چلے کہ حقیقی فلاحی ریاست کیا ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں میں نے ریاست مدینہ کے موضوع پر مضمون لکھا تو مخالفین نے تنقید کی کہ میں دین کے پیچھے چھپ رہا ہوں، مجھے سیاست میں آنے کی ضرورت نہیں تھی، میری ساری جدوجہد کا مقصد ملک کو مثالی فلاحی ریاست بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس مقصد کے لیے ہم نے ملک بنایا، جب تک ہم اس مقصد پر عمل نہیں کریں گے ہم ترقی نہیں کر سکتے۔

مہنگائی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مجھے مہنگائی کا احساس ہے یہ ایسی چیز ہے جو مجھے کئی مرتبہ راتوں کو جگاتی ہے، ہمیں ماضی کی حکومت کا چھوڑا ہوا پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ملا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومت کے چھوڑے ہوئے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے کرنٹ اکائونٹ خسارے کی وجہ سے روپے پر بوجھ پڑا، جس سے مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کی وجہ سے سپلائی میں کمی کے باعث پوری دنیا میں مہنگائی ہوئی، مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے، دنیا کے کئی امیر ترین ممالک میں بھی مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی سے تنخواہ دار طبقہ متاثر ہوا ہے لیکن کسان خوشحال ہوا، مزدور طبقے کی طلب میں اضافہ ہوا، کئی شعبوں میں ریکارڈ ترقی ہوئی اور کارپوریٹ سیکٹر نے ریکارڈ منافع کمایا ہے، کارپوریٹ سیکٹر کو اپنے ورکرز کی تنخواہیں پڑھانی چاہیے۔

وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں کئی بہت اچھے صحافی ہیں جو لوگوں کو شعور و آگاہی دیتے ہیں مگر بدقسمتی سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو صرف مایوسی پھیلاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کارپوریٹ سیکٹر کو 980 ارب کا منافع ہوا ہے اور میں ان کو بلا کر کہوں گا کہ وہ اپنے عملے کی تنخواہوں بڑھائیں کیونکہ آپ کو آج سے قبل کبھی بھی اتنا منافع نہیں ہوا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب سے ہماری حکومت آئی ہے تو چار بحران آئے ہیں جس میں سب سے بڑا بحران یہ تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا تھا، ہمارے پاس پیسے نہیں تھے کہ ہم قرض کی قسطیں ادا کر سکیں اور زرمبادلہ کے ذخائر سب سے کم تھے جبکہ بجلی کا گردشی قرض 480 ارب تھا لہذا ایسے حالات میں ہماری کوشش تھی کہ ملک کو مستحکم کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ملک کو کامیابی سے مستحکم کیا ہی تھا کہ کورونا آ گیا، 100 سال میں یہ دنیا کا سب سے بڑا بحران ہے اور پھر مہنگائی کی لہر آ گئی اور سب جگہ یہ مشکل ہے۔عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں نئی حکومت آئی تو لوگوں نے ڈالر خریدنا شروع کر دیے اور یہاں سے ڈالر خرید کر افغانستان بھیجے جس سے ہمارے روپے پر دبائو پڑا، یہ چار بحران کسی بھی حکومت کو نہیں ملے۔

ایک کالر نے کورونا کے سبب متاثر ہونے والی کیٹرنگ، ریسٹورنٹ وغیرہ کی صنعت کے لیے ریلیف پیکج کی اپیل کی جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا کا ویریئنٹ اومیکرون بہت تیزی سے پھیلتا ہے لیکن ہم نے اپنے کاروبار بند نہیں کرنے، ہم نے کورونا پھیلنے پر لاک ڈائون نہیں لگایا جس پر آج دنیا ہماری مثال دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا سے سب سے زیادہ نچلا طبقہ پسا ہے اور سب سے زیادہ فائدہ امیر ترین طبقے کو ہوا ہے، اس لیے ہم نے توازن قائم رکھنا ہے، ہمیں چاہیے کہ سب جگہ ماسک پہن کر جائیں تاکہ ہمارے ہسپتالوں پر دبائو نہ بڑھے اور انشااللہ ہم کووڈ کی پانچویں لہر سے بھی نکل جائیں گے۔ ایک کالر نے ایمرجنسی کے نفاذ یا صدارتی نظام کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں زیر گردش خبروں کے حوالے سے سوال کیا تو عمران خان نے جواب دیا کہ میں نے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی ہی تقریر میں کہا تھا کہ آپ کو بہت شور سننے کو ملے گا کہ ملک تباہ ہو گیا، یہ نااہل ہیں، میں ان گھٹیا لوگوں کے خلاف کھڑا ہونا جہاد سمجھتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے مفاہمت نہیں کرنی ، انہوں نے ہمیں بلیک میل کرنا ہے تاکہ انہیں کسی طرح این آر او مل جائے جیسے پرویز مشرف نے دیا تھا، جنرل مشرف نے اس ملک پر مارشل لا سے زیادہ ظلم ان دو خاندانوں کو این آر او دے کر کیا تھا اور آج قوم اس کی قیمت ادا کر رہی ہے کیونکہ جو آدھا پیسہ ہم ٹیکس سے اکٹھا کرتے ہیں وہ ان کے لیے قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دو خاندانوں کو این آر او دینا ملک سے سب سے بڑی غداری ہے، انہوں نے افراتفری پھیلائی ہوئی ہے، یہ کہتے ہیں غربت بڑھ گئی ہے لیکن ورلڈ بینک کے مطابق غربت کم ہوئی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کاروبار کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کیں، تعمیراتی صنعت میں 324 منصوبے ہیں جس میں 30 لاکھ گھر بن رہے ہیں، اس سے 30 صنعتیں منسلک ہیں اور اسی وجہ سے شرح نمو بڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم 6 ہزار ارب سے زائد ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائیں گے، میں نے وعدہ کیا تھا کہ 8 ہزار ارب ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائوں گا اور ہم اس سے زائد ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ تنقید اچھی چیز ہوتی ہے لیکن ایک چیز پراپیگنڈا اور جعلی خبر ہوتی ہے، جان بوجھ کر ملک میں فیک نیوز کے ذریعے جو مایوسی پھیلائی جا رہی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو مافیاز ہیں، ہمارا مقابلہ عام لوگوں سے نہیں، یہ سیاستدان نہیں مافیاز ہیں۔عمران خان نے کہا کہ میڈیا میں بیٹھے ہوئے لوگ ان کے ساتھ مل کر مسلسل مایوسی پھیلا رہے ہیں، میرا ان سے سوال ہے کہ اس کا کیا جواب ہے کہ شرح نمو 5 فیصد زائد کیسے ہوئی ہے، تمام شعبوں میں نمو کیسے ہوئی ہے، اگر اتنے برے حالات تھے تو ملک کو دیوایہ ہو جانا چاہیے تھا اور بیروزگاری بڑھنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ روزگار بڑھ رہا ہے، غربت کم ہو رہی ہے، ملک کی دولت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، ملک کا ٹیکس بھی زیادہ اکٹھا ہو رہا ہے تو مایوسی کس چیز کی ہے اور بلوم برگ نے پیشگوئی کی ہے کہ پاکستان صحیح ڈگر پر گامزن ہے۔

ایک کالر کی جانب سے ملک میں انصاف کی فراہمی میں ناکامی کے حوالے سے سوال پر عمران خان نے کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا تھا کہ یہاں یکدم دودھ کی نہریں بہہ جائیں گی، ریاست مدینہ ایک دن میں نہیں بنے گی، اس میں وقت لگے گا لیکن اس کے لیے ہمیں نبی اکرمۖ کے بنائے گئے ماڈل پر عمل کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے کہتے ہیں کہ آپ قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ہاتھ نہیں ملاتے لیکن میں شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ قوم کا مجرم سمجھتا ہوں، قائد حزب اختلاف بہت بڑا رتبہ ہوتا ہے، یہ ڈیڑھ دو گھنٹے کی تقریر کرتے ہیں لیکن وہ تقریر نہیں جاب ایپلیکیشن ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سب سے بات کرنے کے لیے تیار ہوں، جمہوریت کا مطلب ہی یہی ہے چاہے کسی کا نطریہ مجھ سے ملتا ہو یا نہ ہو لیکن جس دن میں مجرموں سے مفاہمت کروں گا، میں اس ملک اور اللہ سے غداری کروں گا۔ اپوزیشن کے لانگ مارچ کے حوالے سے سوال پر عمران خان نے کہا کہ عوام کو ذوالفقار علی بھٹو نے نکالا تھا یا پبلک میرے ساتھ نکلی ہے، پبلک بے وقوف نہیں ہے، مہنگائی کی وجہ سے یقینا لوگ تنگ ہیں لیکن آپ کے لیے نہیں نکلیں گے۔

وزیر اعظم نے دعوی کیا کہ ہماری حکومت اس مرتبہ اپنی مدت پوری کرے گی اور اگلی مرتبہ بھی اپنی مدت پوری کرے گی کیونکہ کسی حکومت کو وہ چیلنجز نہیں ملے جو ہمیں ملے تھے۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو خبردار کیا کہ اگر میں حکومت سے باہر نکل گیا تو آپ کے لیے زیادہ خطرناک ہوں، ابھی تک تو میں چپ کر کے بیٹھا ہوتا ہوں، اگر میں سڑکوں پر نکل آیا تو آپ کے لیے چھپنے کی جگہ نہیں ہو گی کیونکہ لوگ آپ کو پہچان چکے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply