شوہر کے بیوی پر جسمانی یا ذہنی تشدد پر تین برس تک قید کی تجویز

شوہر یا اس کے رشتہ داروں کے خاتون پر تشدد پر تین برس قید کی سزا تجویز

شوہر یا اس کے رشتہ داروں کے خاتون پر تشدد پر تین برس قید کی سزا تجویز

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے فوجداری اور پاکستان پینل کوڈ قوانین میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے جسے آئندہ وفاقی کابینہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔  وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق 600 سے زائد قوانین میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے جسے کابینہ کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر قانون کے مطابق کابینہ سے منظوری کے بعد ترمیمی بل آرڈیننس کے ذریعے نہیں بلکہ پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے گا۔ حکومت نے امریکہ اور برطانیہ طرز کا آزاد پراسیکیوشن سروس کا نیا نظام لانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے پولیس اور عدالتی نظام میں تبدیلی آئے گی۔ فروغ نسیم کے مطابق مجوزہ قانون میں ایف آئی آر کی ڈیجیٹلائزیشن، ٹرائل کے طریقہ کار، قانون شہادت اور جدید آلات کو استعمال کرنا شامل ہیں۔

پاکستان پینل کوڈ میں کون سی ترامیم شامل ہیں؟

اردو نیوز کے پاس دستیاب ابتدائی طور پر تیار کیے گئے ڈرافٹ میں کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898 میں تبدیلی، پاکستان پینل کوڈ 1860 میں ترامیم، قانون شہادت آرڈر 1984، دیگر کریمنل قوانین، پاکستان پریزن رول 1978 میں ترامیم، رحم کی اپیل، اسلام آباد میں کریمنل پراسیکیوشن سروس ایکٹ 2021 کا ڈرافٹ بل اور اسلام آباد میں فرانزک سائنس ایجنسی ایکٹ 2021 کے بارے میں تجاویز شامل ہیں۔

شوہر یا اس کے رشتہ داروں کے خاتون پر تشدد پر تین برس قید کی سزا تجویز:

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی جانب سے تجویز کردہ ترامیم میں پاکستان پینل کوڈ میں خواتین پر تشدد روکنے کے حوالے سے سیکشن شامل کرنے کی تجویز ہے۔ سیکشن 498 ڈی کے مطابق بیوی پر شوہر یا اس کے کسی رشتہ داری پر تشدد ثابت ہونے کی صورت میں تین سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ تجویز کردہ سیکشن کے مطابق ایسا کوئی بھی اقدام خاتون پر تشدد کے زمرے میں آئے گا جس سے خاتون خودکشی کرنے پر مجبور ہو یا اسے ذہنی یا جسمانی طور پر نقصان پہنچایا جائے۔  اس کے علاوہ عورت کو جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے ہراساں کرنا بھی اس زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ میں ایک نئی دفعہ 354 بی کا اضافہ کرنے کی بھی تجویز ہے۔ اس کے مطابق کسی خاتون کا پیچھا کرنے پر بھی سزا کی تجویز ہے، اس میں نہ صرف پیدل چلنے بلکہ سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر کسی بھی ذریعے سے پیچھا کرنے کی شکایت پر بھی پولیس کارروائی عمل میں لا سکتی ہے۔ ان دفعات کے تحت پہلی مرتبہ ایسا کرنے پر پولیس وارننگ جاری کر سکتی ہے جبکہ دوسری مرتبہ شکایت موصول ہونے کی صورت میں تین ماہ قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دینے کی تجویز شامل ہے۔ جبکہ بار بار کسی فرد کی شکایت موصول ہونے کی صورت میں سزا ایک سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے تک بڑھانے کی تجویز ہے۔

فوج کو بدنام کرنے پر دو برس قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی تجویز:

پاکستان پینل کوڈ میں فوج کو بدنام کرنے سے متعلق ایک نئے سیکشن کے اضافے کی تجویز ہے جس کے ذریعے فوج کو بدنام کرنے پر دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی تجویز بھی کی گئی ہے۔اس کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج کو جان بوجھ کر بدنام کرنے پر دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی جا سکے گی۔ایسی شکایت پاکستان کی مسلح افواج کی طرف سے کی جائے گی تو وہ پاکستان فوج کے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ کی طرف سے دائر کرنے کی تجویز ہے۔

ایس ایچ او کا گریجویٹ ہونا لازمی اور چند دیگر تجاویز:

مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق کسی بھی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او کی کم از کم تعلیمی قابلیت گریجویٹ ہونا لازمی قرار دینے کی تجویز ہے جبکہ اس کا رینک سب انسپکٹر سے کم نہیں ہو گا۔ تجویز کردہ ترامیم میں سیکشن 160 میں تبدیلی کی بھی تجویز ہے۔ جس کے مطابق 15 سال سے کم عمر بچے یا بچی اور 65 سال زائد العمر خاتون کو تھانے نہیں بلایا جا سکے گا اور کسی کیس میں ان سے تفتیش ضروری ہو گی تو ان کی رہائش گاہ پر ہی تفتیش کرنے کی تجویز شامل ہے۔ کسی بھی کیس میں پولیس کو تفتیش جلد مکمل کرنے کے لیے پابند بنانے کے لیے سیکشن 173 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے۔ جس کے مطابق کیس درج ہونے کے 45 دن کے اندر پولیس افسر کو تفتیش مکمل کرنا ہو گی۔ مقررہ دنوں میں تفتیش مکمل نہ ہونے کی صورت میں تفتیشی افسر پراسیکیوٹر کو تین دن کے اندر ضمنی رپورٹ بھیجے گا۔ کیسز کے اندراج اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر کو اختیار حاصل ہو گا کہ وہ کسی اعتراض کی صورت میں پولیس کی تفتیش اسے واپس بھجوا سکتا ہے اور اسے کیس مضبوط بنانے کے لیے مزید شواہد لینے کا کہہ سکتا ہے۔ پراسیکیوٹر کی ہدایت پر پولیس افسر پابند ہو گا کہ وہ ان ہدایات پر عمل کرے اور عمل نہ کرنے کی صورت میں تحریری طور پر وجوہات سے آگاہ کرے۔ تجویز کردہ ترمیم کے تحت عدالتوں کو کسی بھی کیس کی سماعت 9 ماہ کے اندر مکمل کرنی ہو گی اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں متعلقہ ہائی کورٹ کو اس کی وجوہات بتانی ہوں گی۔ ہائی کورٹ کی طرف سے وجہ کو تسلیم کیے جانے پر نئی ٹائم لائن اور وقت مقرر کیا جائے گا۔  اس سلسلے میں کسی سرکاری مشکل کی صورت میں ہائی کورٹ کسی بھی سرکاری ادارے کو وہ رکاوٹ دور کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے۔

No comments.

Leave a Reply