لیبیا سے دو ہفتے میں 25 ہزار مصریوں کا انخلا

لیبیا سے دو ہفتے میں 25 ہزار مصریوں کا انخلا

لیبیا سے دو ہفتے میں 25 ہزار مصریوں کا انخلا

قاہرہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

مصر کی وزارت خارجہ نے اطلاع دی ہے کہ لیبیا میں مقیم 25 ہزار سے زیادہ مصری اسی ماہ سخت گیر جنگجو گروپ دولت اسلامیہ  کے ہاتھوں 21 قبطی عیسائیوں کے سرقلم ہونے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد وطن لوٹ آئے ہیں۔ وزارت خارجہ نے جمعہ کو ایک بیان میں بتایا ہے کہ 21407 مصری زمینی راستے سے سالوم بارڈر کراسنگ کے ذریعے ملک لوٹ آئے ہیں اور 4122 مصری لیبیا سے پڑوسی ملک تیونس چلے گئے تھے جہاں سے وہ حکومت کی چارٹر پروازوں کے ذریعے وطن واپس پہنچے ہیں۔ دولت اسلامیہ کے جنگجوئوں نے مصر سے تعلق رکھنے والے یرغمال 21 قبطی عیسائیوں کے سمندر کنارے بے دردی سے ذبح کر دیا تھا اور ان کے اس بہیمانہ قتل کی ویڈیو انٹر نیٹ پر جاری کی تھی۔ اس کے منظر عام پر آنے کے بعد 16 فروری کو مصر کے لڑاکا طیاروں نے لیبیا کے مشرقی شہر درنہ میں دولت اسلامیہ کے جنگجوئوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔ مصری حکومت نے تب لیبیا میں مقیم اپنے شہریوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے تحفظ کے پیش نظر وطن لوٹ آئیں۔ لیبیا میں روزگار کے سلسلے میں مقیم مصریوں کے حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن مختلف ذرائع کے تخمینوں کے مطابق ہزاروں مصری لیبیا میں مقیم ہیں۔ 2011ء  میں کرنل معمر قذافی کی حکومت کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کے وقت تقریباً 15 لاکھ مصری تعمیرات اور خدمات کے شعبوں میں کام کر رہے تھے۔ اسی سال لیبیا میں خانہ جنگی کے دوران ہزاروں مصری وطن لوٹ آئے تھے اور اس کے بعد گذشتہ 4 سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران لیبیا سے مصریوں کی مسلسل واپسی کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ اس وقت لیبیا میں 2 متوازی حکومتیں اور پارلیمان کام کر رہی ہیں۔ دارالحکومت طرابلس میں اسلامی گروپوں پر مشتمل فجر لیبیا کی حکومت ہے اور ملک کے مشرقی علاقوں میں وزیر اعظم  Abdullah al-Thinni کی قیادت میں حکومت کی عمل داری ہے۔ اس کے دفاتر مشرق شہر طبرق میں قائم ہیں۔  Abdullah al-Thinni حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کا دارالحکومت طرابلس اور ملک کے مغربی علاقوں میں کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ان دونوں حکومت کے زیر اثر مسلح ملیشیائوں کے درمیان ایک دوسرے کے علاقے پر قبضے کے لیے مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ اب داعش کے ظہور کے بعد عالمی برادری لیبیا کی صورت حال کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔

No comments.

Leave a Reply