بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد ”ریاستی دہشت گرد” قرار

بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد

بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

بنگلہ دیش کے متنازعہ وار کرائم ٹریبونل کے ذریعے علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر کی پھانسیوں پر حکومت پاکستان کے احتجاج کو بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے کہہ کر مسترد کیا کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ لیکن وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکی ہیں کہ جب 1974ء کے سہ فریقی معاہدے کے تحت اس ٹریبونل کا قیام درست نہیں ہے تو اس کے ذریعے سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دلانے کا عمل کس طرح قانونی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔  دوسری جانب علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر کو پھانسیوں پر پاکستان کے سینئر سیاستدانوں اور دیگر اہم شخصیات نے سخت مذمت کرتے ہوئے حسینہ واجد کو ”ریاستی دہشت گرد” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی اشاروںپر ناچنے والی حسینہ واجد اختیارات کے بل پر سیاسی رہنمائوں کا قتل کر رہی ہیں۔ عالی برادری کو اسٹیٹ لیول پرہونے والی اس دہشت گردی کے خلاف بھرپور آواز بلند کرنی چاہیئے۔ اس حوالے سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں ان لوگوں کو سزا دی جا رہی ہے، جو عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے انسانیت سوز جرائم میں شریک نہیں تھے۔ وہ پاکستان توڑنے کے جرم میں شریک نہیں تھے۔ وہ بھارت کی حمایت کرنے اور پاکستان کی مخالفت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس انہوں نے دو قومی نظریے کی پاسداری کی تھی۔ راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ 1974ء کے سہ فریقی معاہدے پر بنگلہ دیشی وزیر خارجہ، بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ اور پاکستانی وزیر خارجہ عزیز احمد کے دستخط موجود ہیں۔ اس معاہدے میں تینوں ملکوں نے وعدہ کیا تھا کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی جو بنگلہ دیش بنانے کے مخالف تھے یا پاکستان میں رہتے ہوئے بنگلہ دیش کے حامی تھے۔ لیکن بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے اس معاہدے کی کوئی پرواہ نہیں کی، بلکہ سیاسی انتقام کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس حوالے سے سنگین الزامات کا نشانہ بنائے جانے والے سیاسی رہنمائوں کو صفائی کا موقع بھی نہیں دیا جا رہا۔ بلکہ بھارتی اشارے پر بنائے گئے وار کرائم ٹریبونل کے ذریعے بوڑھے اور بیمار سیاسی رہنمائوں کو سزائے موت دلوائی جا رہی ہے۔ یہ بہت بڑا ظلم اور ریاسی دہشت گردی ہے جو حسینہ واجہ بھارت کی شہ پر کر رہی ہیں۔ عالی سطح پر اقوام متحدہ اور جنیوا میں موجود انسانی حقوق کے عالمی ادارے کو اس ریاستی دہشت گردی کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔ راجہ ظفر الحق نے مزید کہا کہ انسانی حقوق میں سب سے بڑا حق انسان کی زندگی کا ہے۔ لیکن بنگلہ دیش کی حکومت اپنے شہریوں سے جینے کا حق چھین رہی ہے۔ جو لوگوں پر شیخ حسینہ واجد کی حکومت مقدمہ چلا رہی ہے ان کو وکیل کرنے کا حق بھی دینے کو تیار نہیں۔ بنگلہ دیش میں اس انتہا پسندی کی وجہ ہے کہ بھارت میں ایک انتہا پسند حکومت برسراقتدار آئی ہے، جس نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ واشوا ہندو پریشد اور شیو سینا میں انتہاپسند ہندو تنظیموں کو دہشت گردی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ دوسری طرف بھات کو خوش کرنے کے لیے عوامی لیگ کی حکومت نے نام نہاد دوار کرائم ٹریبونل بنا کر پاکستان دشمنی کا بھارت کو ثبوت دیا۔  ایک سوال کے جواب میں ظفر الحق کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جب اس سال ڈھاکہ کا دورہ کیا، تو ان کو خوش کرنے کے لیے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے جنرل نیازی کی ہتھیار ڈالتے ہوئے تصویر پیش کی۔ اس پر بھارتی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے قیام میں ہمارا خون بھی شامل ہے، اور پاکستان کو توڑنے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت اور حسینہ واجد کا انتقام کا جذبہ ابھی سرد نہیں ہوا۔ راجہ ظفر الحق کے مطابق ایسی صورتحال جنوبی افریقہ میں بھی پیش آئی تھی لیکن وہاں نیلسن منڈیلا نے سفید فام لوگوں کی جان بچانے کے لیے اور ان لوگوں کو جو سفید فاموں کے ساتھ تھے،  ان کو غداری کے الزام سے بچانے کے لیے بڑی پیمانے پر عام معافی کا اعلان کیا تاکہ خون خرابہ نہ ہو۔  لیکن بنگلہ دیش میں ایسا نہیں کیا گیا۔ عوامی لیگ کے دل سے تعصب اور نفرت نہیں ختم ہوئی ہے، بالکل اسی طرح جیسے بھارت کے حکمرانوں نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ اس کا اظہار وہاں ہونے والے کرکٹ میچوں میں ہوا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف ہونے والے میچوں میں پاکستانی پرچم لے کر آئے تھے۔ راجہ ظفر الحق نے امیر جماعت السلامی بنگلہ دیش Matti-ur-Rahman Nizami کی پھانسی کی تیاریوں پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ شدید ظلم ہے۔ اب عالمی برادری کو اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی۔ دوسری جانب سابق سیکرٹری خارجہ ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی نے کہا کہ بنگلہ دیش میںتو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی صورتحال ہے۔ غدار کون تھا؟ یہ سب کو معلوم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ مجیب الرحمن پاکستان کی قید میں تھے ان کو خیر سگالی کے طور پر بھٹور صاحب نے رہا کیا۔ لیکن ان کو خود بنگالیوں نے قتل کر دیا۔ آج بھی بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے، بھارت کی ہی شہ پر ہو رہا ہے۔ 45 سال بعد ان مقدمات کے چلانے سے عوامی لیگ کی بدنیتی ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ عوامی لیگ نے یہ ظالمانہ اقدام اس دوران تیز کئے جب بھارت میں انتہا پسند ہندوئوں کی حکومت آ گئی۔

No comments.

Leave a Reply