خدا کے نام پر تشدد، نفرت بلاجواز، بین المذاہب مذاکرات ضروری ہیں: پوپ فرانسس

مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کا براعظم افریقہ کا یہ پہلا دورہ ہے

مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کا براعظم افریقہ کا یہ پہلا دورہ ہے

نیروبی ۔۔۔ نیوز ٹائم

مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے  کہ افریقہ میں بین المذاہب مذاکرات نوجوان نسل کو یہ سکھانے کے لئے بہت ضروری ہیں  کہ خدا کے نام پر تشدد اور نفرت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بات کینیا کے دورے کے دوران کہی ہے جو پہلے ہی عسکریت پسندی اور قتل عام سے متاثر ہے۔ اس موقع پر مسلمان رہنمائوں نے بھی برداشت پر زور دیا۔ پوپ فرانسس کے مطابق آج کے نوجوانوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ خدا کے نام پر نفرت اور تشدد بلا جواز ہیں۔ مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کا براعظم افریقہ کا یہ پہلا دورہ ہے، اس کا بنیادی مقصد منقسم مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پل قائم کرنا ہے۔ کینیا اور وسطی افریقی جمہوریہ ایک عرصے سے فرقہ وارانہ تنازعات کا شکار ہیں۔ مسلمان اور دیگر مذاہب کے 25 نمائندوں سے پوپ نے ملاقات کرتے ہوئے کہا  کہ اختلافات اور خوف کی بنیاد پر نوجوانوں کو بنیاد پرست بنایا جا رہا ہے، یہ بات معاشرے کو تقسیم کر رہی ہے۔ بین الاقوامی اور بین المذاہب مکالمہ لگژری بات نہیں، یہ اختیاری چیز بھی نہیں بلکہ اس کا ہونا لازمی ہے۔ خدا کا نام تشدد اور نفرت کے پھیلانے کے لیے ہرگز استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ دوسری جانب کینیا میں مسلمانوں کی سپریم کونسل کے چیئرمین Abdulghafur El-Busaidy نے تعاون اور برداشت سے کام لینے کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک خدا کے بندے ہونے اور انسانیت کے ناطے ہم آہنگی کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ہمیں ان تمام امور میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے، جو اجتماعی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہیں۔ نظریاتی اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ پوپ فرانسس کینیا کے دارالحکومت میں ایک ریلی سے خطاب بھی کریں گے، جس میں لاکھوں مسیحی شرکت کر رہے ہیں۔ نیروبی میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کرتے ہوئے ہزاروں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ ہجوم کو قابو میں رکھا جا سکے۔ واضح رہے کہ براعظم افریقہ میں کیتھولک مسیحیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔  اعداد و شمار کے مطابق 2050ء تک وہاں ممکنہ طور پر کیتھولک مسیحیوں کی تعداد نصف ارب تک پہنچ سکتی ہے۔

No comments.

Leave a Reply