بنگلہ دیش میں پھانسیوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کا مطالبہ

گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے امیر علی احسن مجاہد اور بی این پی کے رہنما  صلاح الدین قادر کو پھانسی دید ی گئی تھی

گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے امیر علی احسن مجاہد اور بی این پی کے رہنما صلاح الدین قادر کو پھانسی دید ی گئی تھی

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

بنگلہ دیش کی حکومت نے وار کرائم ٹریبونل کے نام پر قانون اور انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ حکومت پاکستان کو مزید بے گناہ افراد کو پھانسی سے بچانے کے لیے اس معاملے کو اقوام متحدہ میں ترجیحی بنیادوں پر اٹھانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور جنیوا میں انسانی حقوق کا عالمی کمیشن اس کے لیے موزوں فورم ہے۔ ان خیالات کا اظہار عالمی قوانین کے پاکستانی ماہرین نے کہا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف میں یہ مقدمہ اس وجہ سے نہیں لے جایا جا سکتا کہ فریقین کا اس بات پر متفق ہونا ضروری ہوتا ہے کہ عالمی عدالت ان کے تنازعہ کا فیصلہ کرے۔ جبکہ بنگلہ دیش حکومت اس معاملے کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے۔ البتہ ماہرین کے مطابق یہ مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت اپنے نام نہاد وار کرائم ٹریبونل کو انٹرنیشنل وار کرائم ٹریبونل کہتی ہے  اور دوسری طرف اس کی کارروائی کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتی ہے۔

اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر قانون اور ممتاز وکیل ایس ایم ظفر نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف میںمقدمہ اس صورت زیر سماعت آ سکتا ہے جب دونوں ریاستیں اس معاملے کے سامنے لے جانے پر متفق ہوں۔ اس لئے پاکستان کی تنہا شکایت بے معنی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش وار کرائم ٹریبونل کے فیصلوں پر احتجاج نہ صرف درست ہے بلکہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ کیونکہ جس لقانون کے تحت بنگلہ دیش میں سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات چلائے جا رہے ہیں اور سزائیں دی جا رہی ہے، وہ قانون خود ہی ناقص ہے۔ بنگلہ دیش حکومت نے اپنی جس نام نہاد عدالت کو عالمی عدالت کا نام دیا ہے، وہ بالکل غلط ہے  کیونکہ عالمی قوانین کے تحت عالمی عدالت صرف سلامتی کونسل ہی قائم کر سکتی ہے، جس میں عالمی قوانین اور عالمی عدالت کے اصولوں کے مطابق مقدمہ چلتا ہے، مقامی قوانین کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے انٹرنیشنل وار کرائم ٹریبونل کا نام سے کر صرف یہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ اس میں گواہیاں کم ہوتی ہیں اس لئے الزام ثابت کرنے کا موقع آسانی سے مل جاتا ہے۔ ایس ایم ظفر نے کہ انہوں نے بنگلہ دیش وار کرائم ٹریبونل کے کچھ فیصلوں کو پڑھا ہے، ان کی بنیاد پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ مقدمات عام عدالت میں چلتے تو ملزمان بری ہو جاتے۔ لیکن جس طرح بنگلہ دیش حکومت نے اس عدالت کے لیے قانون سازی کی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن ملزمان کو اس عدالت میں پیش کیا جائے وہ لازماً سزا پائے گا۔ حسینہ واجد کی حکومت نے یہ عدالت محض سیاسی انتقام لینے کے لیے قائم کی ہے۔ کیونکہ جن لوگوں کو سزا دی گئی ہے، ان سب کو پہلے بنگلہ دیش کی شہریت دی گئی، ان کو عام انتخابات میں حصہ لینے کا موقع بھی دیا گیا اور وہ منتخب ہو کر وزیر بھی بنے۔ انصاف کی اخلاقیات اور اصولوں کا تقاضا ہے کہ کوئی بھی عدالت کسی بھی ایسے مقدمے کی سماعت نہیں کرتی، جسے اب جرم قرار دیا گیا ہے جبکہ اسے اس وقت جرم نہ سمجھا جاتا ہو، یعنی بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے پاکستان سے وفاداری کوئی جرم نہیں تھا۔ کوئی ایسا قانون موثر بہ ماضی نہیں ہو سکتا۔

سابق وفاق وزیر قانون اور معروف وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت میں وہی مقدمات سنے جاتے ہیں جن کی سماعت کے لیے دونوں ممالک راضی ہوں۔ ظاہر ہے بنگلہ دیش اس کے لیے کیوں راضی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملہے کو انسانی حقوق کے طور پر اقوام متحدہ میں اٹھایا جانا چاہیے۔ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کی حکومت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایجنڈے میں ان معاملات کو ترجیحی بنیاد پر کریں اور اس کے لیے اپنے سفارتی اثرات کو استعمال کرے۔ اقوام متحدہ مین موجود پاکستان کے مستقل مندوبین کا فرض ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو قائل کریں کہ وہ اس معاملے میں ازخود نوٹس لے۔ اگر پاکستان میں بھی سقوط ڈھاکہ کے اسباب پر مقدمہ چلایا گیا تو وہ لوگ بھی زد میں آئیں گے جن کو بنگلہ دیش کی حکومت نے فریڈم ایوارڈز سے نوازا ہے۔ لیکن پاکستان کوئی انتقامی کارروائی نہیں کرنا چاہتا اورنہ کرنی چاہیے۔ البتہ حکومت پاکستان کو سفارتی سطح پر اس خلاف ورزی پر آواز اٹھانی چاہیے، کیونکہ یہ پاکستان کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو ترکی طرح اپنے وقار کی حفاظت کرنا چاہیے، جس نے اپنی سرحدی حدود کے تحفظ کی خاطر روس جیسے بڑے ملک کی ناراضگی کی بھی پروا نہیں کی۔ ہمیں بھی اپنے وقار خاطر باہر نکل آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کو یہ پیغام دیا جانا چاہیے کہ وہ زیادتی کرے گا تو نقصان اٹھائے گا۔

سابق نگراں وفاقی وزیر قانون اور بین الاقوامی قانون کے ماہر وکیل احمر بلال صوفی نے امت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش نے نام نہاد کرائم ٹریبونل میں بہت سارے بین القوامی قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلامیہ کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کی گئی ہے،  جس میں کہا گیا ہے کہ مقدمہ چلاتے وقت گواہوں کو تحفظ دیں گے اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کریں گے۔ لیکن بنگلہ دیش وار کرائم ٹریبونل میں ملزمان کی طرف سے گواہوں کو پیش نہیں ہونے دیا گیا۔ جس قانون کے تحت بنگلہ دیش کی حکومت نے انٹرنیشنل وار کرائم ٹریبونل بنایا، اس کی تشکیل کے لیے خاص طور پر ضابطہ فوجداری کو اس پروسیس سے خارج کر دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ گواہی کے قانون کا بھی س ٹریبونل پر اطلاق نہیں ہوتا۔ یعنی کسی بھی جرم کے الزام کے خلاف مقدمہ چلانے کے جو بھی قواعد و ضوابط ہیں ان کو نکال دیا گیا۔  اسی طرح بنگلہ دیش کے آئین میں ترمیم کر کے جن لوگوں پر الزام لگایا گیا ان کو بطور شہری اپنے آئینی حق سے محروم کر دیا گیا۔ اور میرے خیال میں یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔  پاکستان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔

No comments.

Leave a Reply