اگر سمندر نہ ہوتے، تو آج پوری دنیا شدید گرمی کی لپیٹ میں ہوتی۔

سمندروں کا 12 فیصد پانی برف کی شکل میں ہے یہ برف پگھل گئی، تو سمندروں کی سطح خود بخود بلند ہو جائے گی

سمندروں کا 12 فیصد پانی برف کی شکل میں ہے یہ برف پگھل گئی، تو سمندروں کی سطح خود بخود بلند ہو جائے گی

نیوز ٹائم

دنیا کے 72 فیصد رقبے پر سمندروں اور دریائوں کی صورت پانی پھیلا ہوا ہے۔ اور اب پتا چلا ہے کہ بڑھتے عالمی درجہ حرارت کے سامنے یہ ہماری ڈھال بن چکا۔ سبھی جانتے ہیں پچھلے 150 سال میں انسان رکازی ایندھن (فوسلز فیول) جلا کر کھربوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس  اور 300 (Zetajoule) حرارت توانائی (Heat Energy) فضا میں پھینک چکا۔ (جول توانائی ناپنے کا ایک پیمانہ ہے)۔ اگر سمندر نہ ہوتے، تو آج پوری دنیا شدید گرمی کی لپیٹ میں ہوتی۔ ماہرین کے مطابق پچھلے 150 برس کے دوران سمندر رکازی ایندھن جلانے سے جنم لینے والی 90 فیصد حرارت توانائی اور 30 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر چکے۔ حرارت توانائی اور مضر گیس چوس لینے کے باعث ہی دنیا کی آب و ہوا زیادہ نہیں بگڑی اور ممالک میں تباہ کن موسمیاتی تبدیلیاں نہیں آئیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سمندر حرارت جذب کرنے کی حد رکھتے ہیں۔ پھر سمندروں میں زائد حرارت توانائی جمع ہونے سے اب غیر معمولی مظہر خوفناک سمندری طوفان سامنے آنے لگے ہیں۔ ایک زیٹا جول حرارت توانائی کی مقدار جاننے کے لیے یہ مثال دیکھیے۔

امریکیوں نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا تھا۔

اگر اتنی ہی طاقت کے ایٹم بم ایک سال تک ہر سیکنڈ بعد پھوڑے جائیں، تو کل 2 زیٹا جول حرارت توانائی پیدا ہو گی۔ گویا پچھلے 150 سال میں دنیا کے سمندر اتنی زیادہ حرارت توانائی 300 (زیٹا جول) جذب کر چکے جو اتنے ہی برس فی سیکنڈ ایٹم بم پھوڑنے سے جنم لیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 300 زیٹا جول حرارت توانائی اور کھربوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ نے سمندروں کا کیا حال کر ڈالا؟نتیجہ کچھ اچھا نہیں۔  حرارت توانائی بڑھنے سے سمندروں کا پانی گرم ہو چکا۔ نتیجتاً قطب شمالی اور قطب جنوبی میں کروڑوں برس سے جمی برف پگھلنے لگی ہے۔ گرین لینڈ کے گلیشیر بھی پگھل رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سمندروں کا 12 فیصد پانی برف کی شکل میں ہے۔ یہ برف پگھل گئی، تو سمندروں کی سطح خود بخود بلند ہو جائے گی۔  اسی لیے سطح بلند ہونے سے دنیا کے کئی ساحل شہر اور جزائر ڈوبنے کا خطرہ جنم لے چکا جن میں ہمارے ساحلی علاقے کراچی، پسنی، اور مارہ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہونے سے تیزابیت بڑھ چکی۔ یہ بڑھتی تیزابیت حساس سمندری جانوروں کے لیے خطرناک ہے جو تیزابی ماحول میں زندہ نہیں رہ پاتے۔ ان جانوروں میں (coral) بھی شامل ہیں جو رنگ برنگے خوبصورت جزائر تشکیل دیتے ہیں۔ اب انسانوں کی وجہ سے ان کے معدوم ہونے کا خطرہ پیدا ہو چکا۔ یہ ضروری ہے کہ بنی نوع انسان اب رکازی ایندھن کم سے کم جلائے ورنہ مستقبل میں کرہ ارض پر زندگی برقرار رکھنا کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply