پناہ گزینوں کے معاملے پر یورپی ممالک میں اختلافات شدت اختیار کر گئے

پناہ گزینوں کے معاملے پر یورپی ممالک میں اختلافات شدت اختیار کر گئے

پناہ گزینوں کے معاملے پر یورپی ممالک میں اختلافات شدت اختیار کر گئے

برسلز ۔۔۔ نیوز ٹائم

یورپ کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کے معاملے پر یورپی یونین کے رکن ممالک میں اختلافات شدت اختیار کر گئے جس کے بعد یونان نے آسٹریا سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ ادھر مہاجر کے بارے میں یورپی یونین کے کمشنر نے خبردار کیا ہے کہ یورپی ممالک کا سرحدی نظام چند ہفتوں میں مکمل طور پر ناکارہ ہو سکتا ہے۔ برسلز میں جمعرات کو تنظیم کے رکن ممالک اور Balkan ریاستوں کے وزرائے داخلہ کے اجلاس کے بعد Dimitris Avramopoulos نے کہا کہ یورپی یونین کے پاس پناہ گزینوں کی تعداد پر قابو پانے کے لیے 10 دن کا وقت ہے اور ایسا نہ ہوا تو اسے اپنے اوپن بارڈر سسٹم کی تباہی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 7 مارچ کو ترکی سے اس بحران پر سربراہ بات چیت سے قبل ہمیں ٹھوس اور واضح نتائج دکھانے کی ضرورت ہے۔ یونان کی جانب سے آسٹریا سے سفیر کی واپسی کا اقدام اس بحران پر آسٹریا اور Balkan کی ریاستوں کے اس اجلاس کے انعقاد کے جواب میں کیا گیا ہے  جس میں یونان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ یونان کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ سفیر واپس بلانے کا فیصلہ ریاستوں، یونان اور آسٹریا کے عوام کے دوستانہ تعلقات کو بچانے کے لیے کیا گیا۔ وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ یورپی یونین کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کا حل اس ذہنیت اور ایسے غیر ادارہ جاتی اقدامات میں نہیں جن کی جڑیں 19ویں صدی میں ہیں۔ برسلز میں اجلاس میں شرکت کے بعد یونان کے Migration Minister Yiannis Mouzalas نے کہا کہ ان کا ملک یورپ کا لبنان بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آسٹریا، سربیا اور مقدونیہ نے اپنی سرزمین پر پناہ گزینوں کی تعداد محدود کرنے کے لیے اپنے طور پر اقدامات کیے ہیں جن کے نتیجے میں یونان میں بڑی تعداد میں پناہ گزین پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے یورپ میں بغیر پاسپورٹ سفر کے قابل علاقے یعنی Schengen zone کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اس زون میں شامل 26 ممالک میں سفر کے لیے سرحدی پابندیاں موجود نہیں ہیں۔ برسلز میں ہونے والی ملاقات میں یورپی ممالک کے وزرائے داخلہ کو آسٹریا اور 8 بلقان ممالک کی جانب سے تیار کردہ اس منصوبے پر بریفنگ دی گئی جس میں تمام تارکینِ وطن کی انگلیوں کے نشانات لینے اور پاسپورٹ کے بغیر یا جعلی دستاویزات پر یورپ میں داخل ہونے والوں کو واپس بھیجنا شامل ہے۔ اِن ممالک نے اِس بات کا بھی عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ صرف ان تارکین وطن کو قبول کریں گے جن کو تحفظ کی اشد ضرورت ہو گی۔ گذشتہ برس یورپ میں تقریباً 10 لاکھ پناہ گزین داخل ہوئے جس سے دوسری عالمی جنگ کے بعد اس نوعیت کا بحران پیدا ہوا ہے۔ اس سال اب تک ایک لاکھ پناہ گزین غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہو چکے ہیں ان میں سے تقریباً تمام یونان میں موجود ہیں۔ ان افراد میں سے بیشتر شام میں جاری خانہ جنگی سے بچنے کے لیے آئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ ان میں عراق اور افغانستان کے لوگوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔

No comments.

Leave a Reply