مصری حکومت نے اخوان کے خلاف حتمی آپریشن کا فیصلہ کرلیا

مصری حکومت نے اخوان کے خلاف حتمی آپریشن کا فیصلہ کرلیا

مصری حکومت نے اخوان کے خلاف حتمی آپریشن کا فیصلہ کرلیا

قاہرہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

عالم اسلام کی سب سے بڑی مذہبی و سیاسی جماعت اخوان المسلمون کو مصر کی سیکولر عبوری حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ایک بار پھر مصر کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے ہیں۔ مجموعی طور پر بارہ ارب ڈالر امداد کے بعد اب دنوں ممالک نے نو ارب ڈالر مزید دینے کا وعدہ کیا ہے۔ سعودی عرب پانچ ارب، جبکہ متحدہ عرب امارات چار ارب ڈالر کا پیکیج  دے گا۔ دوسری جانب عبوری وزارت داخلہ نے اخوان المسلمون کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کا فیصلہ کر لیا۔ پولیس نے مخصوص ٹیلی فون نمبر جاری کر کے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اخوان کارکنوں اور دہشت گردوں کے بارے میں پولیس کو اطلاع دیں، جبکہ پولیس کو مشتبہ افراد کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا آرڈر جاری کر دیا گیا ہے۔ جبکہ مصری امور کے ماہرین نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے عبوری حکومت کی حماقت قرار دیا ہے۔ اخوان المسلمون نے عبوری حکومت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اپنی تمام سرگرمیاں جاری رکھ کر بھر پور مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ اخوان کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے بعد بڑے پیمانے پر اس کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اخوان کی ذیلی ایک ہزار 55 این جی اوز کے اثاثے منجمد ہونے سے لاکھوں مصری باشندوں کے گھروں کے چولہوں کا بجھنا یقینی ہو گیا ہے۔ الرصد نیوز کے مطابق اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سیکولر عبوری حکومت کو بھاری امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ مصری وزارت خزانہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام کو پوشیدہ رکھنے کی شرط پر طولیہ خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مصری حکومت کو نو ارب ڈالر کے نئے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس پیکیج میں سعودی عرب سے پانچ ارب اور متحدہ عرب امارات سے چار ارب ڈالر امداد ملے گی۔ واضح رہے کہ مصر میں فوجی بغاوت کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت نئی قائم ہونے والی سیکولر عبوری حکومت کو مجموعی طور پر بارہ بلین ڈالر نقد امداد فراہم کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ قیمتی سامان کی صورت میں بھاری امداد بھی دی جاچکی ہے۔ سعودیہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے نام پر دس ارب ڈالر دے چکا ہے اور متحدہ عرب امارات پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے مصر میں پچاس ہزار رہائشی مکانات تعمیر کررہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق عبوری حکومت کی جانب سے اخوان کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہم مصری حکومت کے ساتھ ہیں اور اس کی امداد جاری رکھی جائے گی۔ دوسری جانب اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے بعد اخوان کارکنوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ عبوری حکومت کے اس فیصلے کے بعد اخوان سے کسی قسم کا تعلق ناقابل معافی جرم ہوگا۔ جس کی سزا کم از کم پانچ سال قید ہوگی۔ الرصد کے مطابق جمعرات کے روز سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ پولیس نے مصری شہریوں کو تین خصوصی ٹیلی فون نمبر بھی جاری کیے ہیں جن پر شہری کسی بھی اخوان کارکن کے بارے میں پولیس کو آگاہ کریں گے۔ جبکہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو مشتبہ افراد کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم مصری سیاسی جماعتوں کی جانب سے عبوری حکومت کے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مصر کی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ عبوری حکومت ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جارہی ہے۔ حزب النور نے بھی حکومتی فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مصر کی لبرل جماعت تحریک 6 اپریل کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ بی بی سی عربی نے گارجین کے حوالے سے لکھا ہے کہ مصری عبوری حکومت کی جانب سے اخوان المسلمون کو بغیر کسی دلیل کے دہشت گرد قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ منصورہ دھماکے سے اخوان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی کارروائیوں میں انہی لوگوں کا ہاتھ ہے جو مصر میں برپا ہونے والے آمریت کے خلاف انقلاب کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت جو نوجوان مصری سڑکوں پر معزول صدر مرسی کی بحالی کے لیے مظاہرے کررہے ہیں انہی کی کوششوں سے مصر کو طویل آمریت سے نجات ملی تھی۔ واضح رہے کہ مصر کی ایک عدالت کی جانب سے اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد عبوری حکومت نے بدھ کے روز باضابطہ طور پر ملک کی سب سے قدیم مذہبی و سیاسی جماعت کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے اور اس کے زیر اہتمام ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں پر پابندی عائد کردی ہے۔ العربیہ نے مصری امور کے ماہرین جن میں امریکی پروفیسر بھی شامل ہیں، کے حوالے سے لکھا ہے کہ اخوان المسلمون پر پابندی عائد کر کے یا اسے دہشت گرد قرار دے کر اسے ختم کرنا فوجی حکمرانوں کی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ عبوری حکومت منظم عالمگیر نیٹ ورک رکھنے والی مذہبی و سیاسی جماعت کو ایک معمولی این جی او یا مقامی تنظیم کے طور پر ڈیل کررہی ہے۔ حالانکہ اخوان المسلمون دنیا کے 72 ملکوں میں 10 کروڑ کارکنوں پر مشتمل ایک عظیم طاقت ہے۔ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون کے تحت مختلف شعبوں میں کام کرنے والی تنظیموں کی تعداد ایک ہزار 55 ہے۔ عبوری حکومت کے نئے فیصلے سے عوامی خدمت پر مامور یہ تمام ادارے بند ہوگئے ہیں جبکہ غاصب حکومت کو ان اداروں کے کروڑوں ڈالر مالیت کے اثاثے بھی مفت میں ملے ہیں۔ جس سے کم از کم سولہ لاکھ گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے ہونا یقینی ہیں۔ الرصد نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اخوان کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے بعد اس کی امداد پر پلنے والے کئی غریب مصری باشندوں نے وزارت داخلہ کی عمارت کے سامنے اجتماعی خودسوزی کی دھمکی دی ہے۔ جبکہ اخوان المسلمون نے عبوری حکومت کے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دے کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے اور بھرپور مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ العربیہ کا کہنا ہے کہ اس امر کا اظہار لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے اخوان المسلمون کی مجلس عاملہ کے رکن ابراہیم منیر نے ایک عالمی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ہے۔ ابراہیم منیر نے کہا کہ عبوری حکومت کی طرف سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کا فیصلہ قانونی اعتبار سے بے جواز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عبوری حکومت کا یہ اقدام اخوان کو جکڑنے کی ایک کوشش ہے۔ اخوان کے رہنما اشرف بدر الدین نے الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی فیصلہ باطل ہے، اس سے پہلے بھی نصف صدی سے حکمراں ایسے ڈھنگیں مارتے رہے ہیں، مگر اس سے جماعت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ العربیہ کے مطابق عبوری حکومت کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے جانے کے باوجود اخوان المسلمون نے سابق آمر حسنی مبارک کے خلاف عوامی انقلاب کے تین سال پورے ہونے پر احتجاجی ریلیاں منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مصری روزنامے الوطن نے انقلاب کی تیسری سالگرہ کے موقع پر اخوان المسلمون کے آزادی اور عوامی منشا کو برقرار رکھنے کے نام سے پروگرام کی تفصیل شائع کی ہے۔ یہ منصوبہ 24 نومبر کو وضع کیا گیا تھا اور اس پر 25 جنوری کو انقلاب کی سالگرہ سے قبل 4 جنوری سے عملدرآمد کیا جائے گا۔ اخوان المسلمون کے پروگرام کے تحت مصر بھر میں فوجی انقلاب کی شکست اور قانون کی حکمرانی کی بحالی کے نام سے ریلیاں منظم کی جائیں گی۔ 20 جنوری کو برطرف صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے حامی قاہرہ کے مشہور میدان التحریر اور رابعہ العدویہ چوک سمیت دوسرے شہروں کے اہم مقامات پر اجتماعات منعقد کریں گے۔ تاہم عبوری حکومت نے ان علاقوں کو سیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز مصر بھر میں عبوری حکومت کے متنازعہ فیصلے پر بھرپور مظاہرے کیے گئے۔

No comments.

Leave a Reply