نوری المالکی کا بیان مسلم امہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کے مرتکب ہوئے ہیں: علماء کرام

عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی

عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی

ریاض ۔۔۔ نیوز ٹائم

عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی نے مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے بجائے کربلا کو مسلمانوں کا ‘قبلہ’ قرار دیا ہے۔ ان کے اس متنازعہ بیان پرعالم اسلام میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ علمائے کرام نے نوری المالکی کے بیان کو فتنہ پردازی، غلو اور اسلام میں تحریف قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کی ہے۔ العربیہ کے مطابق نوری المالکی کے بیان پر سعودی عرب کے ممتاز علما کرام نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نوعیت کے بیانات مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی گھناؤنی سازش ہیں۔ ایسے بیانات وہی شخص دے سکتا ہے جو دین میں ‘غلو’ اور مسلم امہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کا مرتکب ہو۔ سعودی عرب کے جید عالم دین علامہ ڈاکٹر ناصر الحنینی نے نوری المالکی کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ “عراق ایک مسلمان ملک ہے۔ اس کے وزیر اعظم کو ایسا متنازعہ بیان دینے سے سختی سے اجتناب برتنا چاہیے، ورنہ عراق مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس نوعیت کے بیانات مسلمانوں کی وحدت کمزور کرنے اور ان میں تفرقہ پھیلانے کا موجب تو بن سکتے ہیں لیکن اس کا کسی کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا”۔ علامہ الحنینی کا مزید کہنا تھا کہ خانہ کعبہ کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا متفقہ عقیدہ یہی ہے کہ قبلہ صرف مکہ مکرمہ میں ہے اس کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ انہوں نے کربلا کو خانہ کعبہ قرار دینے کے بیان کو دین حنیف میں کھلی تحریف قرار دیا۔ سعودی عرب میں الشریعہ کالج میں فقہ کے استاد پروفیسر ڈاکٹر خالد المصالح نے ڈاکٹر الحنینی کے موقف کی تائید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ خانہ کعبہ کے بارے میں المالکی نے جو بیان دیا ہے اس طرح کی بات کوئی کم عقل اور اسلامی تعلیمات سے نابلد شخص ہی کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر المصالح نے نوری المالکی کے بیان کو دین میں “غلو” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ خانہ کعبہ کے بارے میں پوری مسلم امہ کا اجماع ہے کہ یہ صرف ام القری [مکہ مکرمہ] میں ہے۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا بھی یہی ہے، جس سے کوئی مسلمان انحراف نہیں کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کے بیانات وزارت عظمی جیسے منصب پر فائز کوئی شخص نہیں دے سکتا۔ نوری المالکی ایک علمی شخصیت ہیں، اگر وہ اس طرح کے جاہلانہ بیانات دیں گے تو ہم کم علم لوگوں سے کس خیر کی توقع کرسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والے عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے گذشتہ روز اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ “میرے نزدیک کربلا کو خانہ کعبہ کا درجہ حاصل ہونا چاہیے کیوں کہ نواسان رسول حضرت حسن اور حسین رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کی آخری آرام گاہ کربلا میں ہے”۔ انہوں نے کربلا کی مقامی حکومت پر زور دیا کہ وہ زائرین کی سہولت اور خدمت کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ روضہ حسین کی زیارت کا موقع صرف دسویں محرم اور چہلم ہی نہیں، ہر جمعہ بلکہ ہر روز اس مقدس مقام کی زیارت کی جانی چاہیے کیونکہ کربلا کو قبلہ کا درجہ حاصل ہے۔ اگر ہم قبلہ کی جانب دن میں پانچ مرتبہ رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں۔ ہمیں روضہ حسین کی زیارت بھی دن میں پانچ مرتبہ کرنی چاہیے۔ نوری المالکی نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب ملک تاریخ کی بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ ان کے اس متنازعہ بیان سے ملک میں پہلے سے موجود افراتفری میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ دہشت گردی کے سلسلہ وار دھماکوں سے ایسے لگ رہا ہے کہ المالکی کی حکومت ملک پر اپنی گرفت کھو چکی ہے اور حالات حکومت کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply