اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے پر امریکی تشویش

اخوان المسلمون سے متعلق عبوری حکومت کے فیصلے کو مسترد کئے جانے کے بعد امریکہ نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کر دیا

اخوان المسلمون سے متعلق عبوری حکومت کے فیصلے کو مسترد کئے جانے کے بعد امریکہ نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کر دیا

قاہرہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

مصری عوام اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اخوان المسلمون سے متعلق عبوری حکومت کے فیصلے کو مسترد کئے جانے کے بعد امریکہ نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کر دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مصری وزیر خارجہ نبیل فہمی سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا ہے کہ اخوان المسلمون کو دہشہت گرد جماعت قرار دیئے جانے پر امریکہ کو تشویش ہے، وہ اسے دہشت گرد جماعت نہیں سمجھتا، عبوری حکومت کو ملک مین سیاسی تبدیلی کے لیے تمام جماعتوں کو ساتھ ملا کر چلنا ہو گا۔ جبکہ عرب خطے کی اسلامی جماعتوں نے بھی مصری حکومت کے فیصلے کو اسلام دشمنی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ دوسری جانب اخوان کی حمایت میں مظاہروں پر سخت پابندی کے باوجود جمعہ کے روز لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور رات گئے تک مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ فورسز کی فائرنگ سے جامعہ ازہر کے طالب علم سمیت متعدد مظاہرین شہید ہو گئے۔ دوسری جانب اخوان المسلمون سے ذہنی وابستگی کے باعث فلسطینی حکمراں جماعت حماس بھی مشکلات کا شکار ہو گئی ہے۔ حماس کی حریف جماعت “فتح” نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم اسماعیل ھانیہ اور ان کی جماعت دہشت گرد جماعت اخوان المسلمون سے اپنا تعلق توڑ دیں، ورنہ اسے بھی دہشت گرد قرار دلوایا جائے گا۔ اسرائیل نے بھی اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیے جانے کے موقع کو غنیمت جان کر حماس پر پابندی لگوانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ “العربیہ” کے مطابق مصری عوام اور سیاسی جماعتوں کے اخوان المسلمون پر پابندی کے فیصلے کو مسترد کئے جانے کے بعد حالات کے تیور دیکھتے ہوئے امریکہ نے بھی اس فیصلے پر اپنی تشویش کا اظہار کر دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد اخوان المسلمون کے خلاف عبوری حکومت کے شروع کئے گئے تازہ کریک ڈائون پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد جماعت نہیں سمجھتا۔ جان کیری نے مصر میں خود کش حملوں کی مذمت کرتے ہوئے منصورہ اور قاہرہ میں ہونے والے حالیہ دھماکوں پر افسوس کا اظہار کیا، تاہم انہوں نے کہا کہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد جماعت قرار دینے پر امریکہ کو تحفظات ہیں اور مصر کی عبوری حکومت کو ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر چلنا ہو گا۔ امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان جین پاسکی کے مطابق دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان اس بات پر اتفاق تھا کہ مصر میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ امریکی ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے۔  “الجزیرہ” کی رپورٹ کے مطابق اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے کر اس سے کسی قسم کی وابستگی کو ناقابل معافی جرم قرار دیئے جانے کے حکومتی فیصلے کو عرب خطے کی اسلامی جماعتوں کے علاوہ خود مصری عوام نے بھی بری طرح مسترد کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے حکومت مخالف مظاہروں پر سخت پابندی کے باوجود جمعرات کی رات اور جمعہ کے روز مصر بھر میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ نماز جمعہ کے بعد لاکھوں افراد سڑکوں پر آئے اور انہوں نے معزول صدر ڈاکٹر مرسی کی بحالی اور فوجی بغاوت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارچ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مصری خواتین اور بچوں نے بھی مظاہروں میں بھر پور شرکت کی۔ ادھر انصر سٹی میں واقع ملک کی معروف و تاریخی درسگاہ جامعہ ازہر کے طلبہ کی جانب سے جامعہ میں جاری امتحانات کا بائیکاٹ کر کے شاہراہ پر دھرنا دیا گیا۔ دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے طلبہ پر براہ راست فائرنگ کی، جس سے ایک طالب علم شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔ جبکہ پولیس نے ایک درجن طلبہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ جامعہ ازہر کی طلبہ ایکشن کمیٹی نے جامعہ انتظامیہ کی جانب سے حکومت کی حمایت جاری رکھنے پر جامعہ میں جاری تمام امتحانات کا بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ “الجزیرہ” نے لکھا ہے کہ مصری عوام نے حکومتی فیصلے کو بری طرح مسترد کر دیا ہے۔ بی بی سی عربی نے مصر کے مختلف شہریوں سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے حکومتی فیصلے سے متعلق گفتگو کی۔ بیشتر مصریوں کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اخوان المسلمون کا دہشت گردی سے کوئی تعلق رہا ہو۔ العربیہ کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے مصر کے دو شہروں سے اخوان السملمون کے ایک سابق رکن پارلیمان سمیت اٹھارہ ارکان کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ایک اطلاع کے مطابق ان میں سابق صدر محمد مرسی کی جماعت کے نائب سربراہ کا بیٹا بھی شامل ہے۔ دوسری جانب مصری عوام کے ساتھ ساتھ عرب خطے کی اسلامی جماعتوں نے بھی اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے حکومتی فیصلے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ “الجزیرہ” کے مطابق تیونس کی حرکتہ النہضہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عبوری حکومت نے بغیر کسی ثبوت کے اخوان کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اگرچہ النہضہ کا اخوان سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر اس کے باوجود ہم اس فیصلے کو عدل و انصاف کے خلاف سمجھتے ہیں۔ فلسطینی تنظیم حماس نے بھی اخوان المسلمون کو اپنا مرشد قرار دے کر عبوری حکومت کے فیصلے کو اسلام دشمنی قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں اخوان المسلمون لیبیا، اخوان المسلمون شام اور اردن کی جبہتہ العمل الاسلامی نے بھی اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کی پرزور مذمت کی ہے۔ جبکہ اخوان المسلمون سے ذہنی وابستگی کی وجہ سے فلسطین کی حکمراں جماعت حماس کی مشکلات میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ حماس کی حریف جماعت الفتح نے وزیر اعظم اسماعیل ھانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اخوان المسلمون سے اپنا تعلق توڑ دے ورنہ بین الاقوامی سطح پر اسے بھی دہشت گرد قرار دلوا کر اس پر بھی پابندی لگوا دی جائے گی، تاہم حماس کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حماس نے اخوان المسلمون کے مدرسے میں تربیت حاصل کی ہے، جس پر اسے فخر ہے۔ اخوان المسلمون دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردوں کو مٹانے والی جماعت ہے۔ “القدس العربی” نے لکھا ہے کہ الفتح کا حماس سے مذکورہ مطالبہ سامنے آنے کے بعد اسرائیل نے بھی حماس پر پابندی لگوانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ اسرائیل مصری عبوری حکومت کے حالیہ فیصلے کو جواز بنا کر بڑی طاقتوں کے ذریعے حماس پر پابندی لگوانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ القدس نے اسرائیلی اخبارات کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسرائیل نے کہا ہے کہ جب تک حماس کا مکمل صفایا نہیں ہوتا، اس وقت تک خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل نے اس بیان کے بعد گزشتہ حماس کے کئی ٹھکانوں پر بمباری بھی کی ہے، جس سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی، تاہم اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں حماس کے تربیتی مرکز اور اسلحے ڈپو کو تباہ کیا گیا ہے۔

No comments.

Leave a Reply