شام کی 5 سالہ جنگ سے 80 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہوئے، اقوام متحدہ

شام کی 5 سالہ جنگ سے 80 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہوئے، اقوام متحدہ

شام کی 5 سالہ جنگ سے 80 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہوئے، اقوام متحدہ

جنیوا ۔۔۔ نیوز ٹائم

بچوں کی فلاح و حقوق کے لیے اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسیف نے کہا ہے کہ شام کے 5 سالہ تنازعے سے 80 فیصد بچے بالواسطہ یا بلاواسطہ ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہوئے ہیں جبکہ جنگ شروع ہونے کے بعد پیدا ہونے والے لاکھوں بچوں نے سوائے جنگ کے علاوہ کوئی دوسرا ماحول نہیں دیکھا۔ یونیسیف کے مطابق بچے شدید غربت کی وجہ سے یا تو مسلح گروہوں میں شامل ہو رہے ہیں، مزدوری کر رہے ہیں یا پھر مجبوراً شادی کر رہے ہیں۔ تنظیم کے مطابق شام میں ایک تہائی بچوں کی عمر 18 برس سے کم ہے اور جنگ شروع ہونے کے بعد اب تک شام میں 37 لاکھ بچے پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے  جنگ کے بادل، بھوک اور بیماری کے علاوہ کچھ اور نہیں دیکھا ہے۔ ادارے کے مطابق اب تک 70 لاکھ بچے شدید غربت کے شکار ہیں جبکہ 2015 ء میں بچوں کے حقوق کی شدید پامالی کے 1500 واقعات نوٹ کیے گئے جن میں قتل، زیادتی اور تشدد شامل ہے، اس کے علاوہ شام میں کم از کم 2 لاکھ بچے ان علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں ہر وقت جنگ جاری رہتی ہے۔ مشرقِ وسطی کے لیے یونیسیف کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 5 برس کی جنگ اور خونریزی کی وجہ سے بچوں کی معصومیت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ اپنی عمر سے بڑے ہو گئے ہیں، اس جنگ میں بچے بالغوں کی طرح لڑ رہے ہیں، پڑھائی چھوڑ کر بچے مزدوری کر رہے ہیں اور لڑکیوں کی جلدی شادی کی جا رہی ہے۔ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ناکافی غذا اور صحت کی ناقص سہولیات کی وجہ سے بچے کمزوری اور امراض کے شکار ہو رہے ہیں، بچوں کو رقم اور تحفے دے کر جنگ لڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو ایک ہولناک عمل ہے۔ حکام کے مطابق حلب کے شہر میں بچے زیرِ زمین اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں  تاہم 27 فروری کو ہونے والی جنگ بندی کے بعد صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ  صرف 2007 ء میں ایسے بچوں کا انکشاف ہوا ہے جو ہتھیار اٹھائے ہوئے تھے اور ان کی عمر مشکل سے 8 برس تھی۔

No comments.

Leave a Reply