باراک اوباما ہیروشیما کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے

باراک اوباما ہیروشیما کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے

باراک اوباما ہیروشیما کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے

ہیروشیما، ٹوکیو ۔۔۔ نیوز ٹائم

باراک اوباما ہیروشیما کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے۔ اسی دوران امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ دنیا کا ہر مذہب امن کا درس دیتا ہے۔ امریکہ دنیا کو پرامن بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ 6اگست 1945ء کے دن ہیروشیما پر موت آسمان سے گری جس کو دنیا کبھی نہیں بھلا سکتی۔ دنیا کو ہر مسئلے کا حل سفارتی طریقے سے نکالنے اور ایٹمی ہتھیاروں کے فروغ کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روز امریکی صدر باراک اوباما نے جاپان کے شہر ہیروشیما میں ایٹمی حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی یادگار کا پہلا دورہ کیا۔ امریکا کے ایک صدر نے دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے شہر ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرانے کا حکم دیا تھا، اس واقعے کے 70 سال بعد ایک اور امریکی صدر باراک اوباما ایٹم بم کی تباہی سے دوچار ہونے والے اس شہر میں پہنچے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما نے جنگ عظیم دوئم میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر پھول چڑھانے کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے تمام مذاہب امن کا ہی درس دیتے ہیں۔ 71سال پہلے امریکہ نے دوسری عالمی جنگ میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بم نہیں بلکہ آسمان سے موت گری تھی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام لوگ برابر اور ہر کسی کی جان اہمیت کی حامل ہے۔ 71سال پہلے بھی زندگی پروان چڑھتی تھی یہاں بھی زندگی پروان چڑھتی تھی۔ ایٹم بم میں مرنے والے عورتیں، مرد، بچے، ہم جیسے ہی تھے۔ ہم سے مختلف نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ 6 اگست 1945ء کا دن ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ میرا ہیروشیما کا دورہ جنگ عظیم دوئم میں تمام معصوم مرنے والی جانوں کو یاد کرنے کا بہترین موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل سفارتی طریقے سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو ذمہ داری لینی ہو گی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے واقعات دوبارہ نہ دہرائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال انسانی بہتری کے لئے ہونا چاہیئے اور سائنس کا استعمال کر کے انسانی زندگی کو ضائع کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔ دنیا کی تمام ایٹمی طاقتوں کو ایٹمی ہتھیاروں کے فروغ کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں امن قائم ہو سکے۔ انھوں نے مستقبل میں اس قسم کی صورتحال سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو پرامن بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور ان کا یہ دورہ بھی انسانی بنیادوں پر ہے۔ باراک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکا اور جاپان صرف اتحادی نہیں بلکہ دوست بھی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانی اداروں میں برابر کی ترقی کے بغیر تکنیکی ترقی ہمارے لیے عذاب بن سکتی ہے، سائنسی انقلاب کے ساتھ ساتھ اخلاقی انقلاب کی بھی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ امریکا نے 6 اگست 1945ء کو ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ اس سال کے آخر تک مر گئے تھے۔ امریکا اور جاپان کی حکومتوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان ماضی کی تلخیوں کے خاتمے اور دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے کوششوں میں مدد ملے گی۔ باراک اوباما نے ہیروشیما کے دورے سے قبل کہا کہ وہ دوسری عالمی جنگ میں مرنے والے تمام افراد کو اعزاز بخشیں گے  لیکن اس شہر پر جوہری بم گرانے پر معافی نہیں مانگیں گے،  امریکا نے 9 اگست 1945ء کو ناگاساکی شہر پر دوسرا ایٹم بم گرایا تھا اور اس کے 6 روز بعد جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ امریکیوں کی اکثریت جاپانی شہریوں پر بم گرانے کی حامی رہی ہے اور ان کا کہنا ہے  کہ جنگ کے خاتمے اور زندگیوں کو بچانے کے لیے یہ اقدام ضروری ہو گیا تھا لیکن بعض تاریخ دانوں نے اس موقف کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں  جبکہ بیشتر جاپانیوں کا یہ یقین رہا ہے کہ امریکا نے بلاجواز ایٹم بم گرائے تھے۔ صدر اوباما کے مشیروں کا کہنا ہے کہ ان کے دورے کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق ایجنڈے کو اجاگر کرنا ہے۔ انھوں نے 2009ء میں نوبل امن انعام جیتا تھا اور انھیں یہ محض دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے موضوع پر دیا گیا تھا۔ انھوں نے سوالوں کے تحریری جواب میں کہا کہ میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی ہتھیار چلانے کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ نہیں لوں گا  بلکہ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ میں اور وزیر اعظم شینزو آبے اکٹھے دنیا کو یہ دکھانے کے لیے آ رہے ہیں  کہ مصالحت ممکن ہے اور سابقہ بدترین حریف بھی مضبوط اتحادی بن سکتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply