بنگلہ دیش میں انتقامی پھانسیاں نئی تحریک کو جنم دے سکتی ہیں

پاکستان کی محبت میں 29 اکتوبر 2014ء کو جماعت اسلامی کے مرکزی امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی کو سزائے موت سنائی گئی جس پر عملدرآمد گزشتہ دنوں ہوا

پاکستان کی محبت میں 29 اکتوبر 2014ء کو جماعت اسلامی کے مرکزی امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی کو سزائے موت سنائی گئی جس پر عملدرآمد گزشتہ دنوں ہوا

نیوز ٹائم

بنگلہ دیش میں Hasina Wajid  حکومت جماعت اسلامی کے Amir Mulana Matti-ur-Rehman Nazami اور دیگر رہنمائوں Abdul Qadir Mulla، Muhammad Qamir-u-zaman، Ali Ahsan Mujahid کو پھانسیاں جبکہ Former JI Ameer Professor Ghulam Azam, Maulana Abul Kalam , Mohammad Yousuf کو جیل ہی میں تشدد کر کے شہید کر چکی ہے۔ Maulana Dilawar Hussain Saeedi اور Mir Qasim Ali کو بھی پھانسی کی سزا سنائی گئی تاہم اس پر عملدرآمد باقی ہے۔ پھانسی پانے والے ہر رہنما سے کہا گیا کہ وہ صدر مملکت سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں لیکن سب نے انکار ہی کیا، ان کا کہنا تھا کہ ان پر جھوٹے الزامات عائد کر کے مقدمات قائم کئے گئے،  رحم کی اپیل کا مطلب الزامات کو درست تسلیم کرنا ہے۔

٭ نام نہاد انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل نے سب سے پہلے JI leader Abdul Kalam Azad کو 21 جنوری 2013 کو پھانسی کی سزا سنائی،  یاد رہے کہ Abdul Kalam Azad کے خلاف مقدمہ ان کی غیر حاضری میں چلایا گیا، بنگلہ دیشی حکام کہتے ہیں کہ وہ اس وقت بھارت یا پاکستان میں کہیں موجود ہیں۔

٭ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری Gen. Abdul Qadir Mullah کو 5 فروری 2013ء کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ 12 دسمبر 2013ء کو پھانسی دیدی گئی۔

٭ دلاور حسین سعیدی جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور 1996ء  سے 2008ء تک رکن پارلیمنٹ رہے، دنیا کے 500 موثر ترین مسلمانوں کی فہرست میں ان کا نام شامل رہا، انھیں بھی سزائے موت سنائی گئی،  بعد ازاں اپیلیٹ بنچ نے ان کی سزا کو موت تک قید کی سزا میں بدل دیا۔

٭ Mohammad Qamar Zaman بھی بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سینئر اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، صحافی اور مصنف تھے، 9 مئی 2013ء کو انھیں سزائے موت سنائی گئی اور 11 اپریل 2015ء کو انھیں پھانسی دیدی گئی۔

٭ چودھری معین الدین پر بھی ان کی غیر حاضری میں مقدمہ چلا کر انھیں بھی 3 نومبر 2013ء کو سزائے موت سنائی گئی،  وہ ایک عالمی اسلامی ادارے مسلم ایڈ کے سابق چئیرمین، برطانوی ادارے نیشنل ہیلتھ سروس  کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

٭ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے بانی Ameer Prof Ghulam Azam  کے خلاف 15 جون 2013ء کو 90 سال قید کی سزا سنائی گئی۔  Prof Ghulam Azam 23 اکتوبر 2014ء کو 91 برس کی عمر میں دوران قید ہی انتقال کر گئے۔ ان کے خاندان اور جماعت اسلامی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انھیں جیل میں شدید اذیتیں دی گئیں، علاج کی سہولتیں فراہم نہ کی گئیں۔

٭ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل Ali Ahsan Mujahid کو 17 جولائی 2013ء کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ 22 نومبر 2015ء کو انھیں پھانسی دیدی گئی۔  وہ 2001ء سے 2007ء تک بنگلہ دیش کے سابق رکن پارلیمان اور سوشل ویلفئیر کے وفاقی وزیر رہے۔

٭ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما، سات بار رکن پارلیمان منتخب ہونے والے Salahuddin Chowdhury کو یکم اکتوبر 2013ء کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ 22 نومبر 2015 کو پھانسی دیدی گئی۔  وہ اپنی پارٹی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن اور پارٹی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء کے پارلیمانی امور کے مشیر تھے۔

٭ علم حدیث کے ممتاز ماہر اور جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر مولانا ابو الکلام محمد یوسف پر بھی مقدمہ چل رہا تھا کہ وہ 2 فروری 2014ء کو جیل ہی میں انتقال کر گئے۔

٭ 29 اکتوبر 2014ء کو جماعت اسلامی کے مرکزی امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی کو سزائے موت سنائی گئی جس پر عملدرآمد گزشتہ دنوں ہوا۔

٭ دو نومبر 2014ء کو جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما، اسلامی بنک کے ڈائریکٹر، ڈگانتا میڈیا کارپوریشن کے چیئرمین، ابن سینا ٹرسٹ کے بانی اور رابطہ عالم اسلامی کے ڈائریکٹر میر قاسم علی کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔ ان سب رہنمائوں پر قتل عام، خواتین کی بے حرمتی سمیت نہایت بے ہودہ الزامات عائد کر کے انھیں موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔  نام نہاد وار کرائمز ٹریبونل  میں چلنے والے مقدمات کے دوران بھی ثابت ہوا کہ ان الزامات کی قطعی طور پر کوئی حقیقت نہ تھی، یہی وجہ ہے کہ جعلی گواہ تیار کر کے، ملزمان کو دفاع کے حق سے محروم کر کے کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔ مقدمات ایسے انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل میں چلائے گئے جو عالمی قوانینِ انصاف سے متصادم ہے،  مختلف غیر ملکی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے غیر قانونی قرار دیا۔  اس ٹریبونل کے پہلے سربراہ جسٹس محمد نظام الحق ایسے متعصب شخص تھے، انھوں نے 20 برس قبل (جب وہ وکیل تھے)، ایک عوامی عدالت لگا کر جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا تھا۔  ٹریبونل کا سربراہ بننے پر وہ بے حد خوش تھے کہ اپنا دیرینہ خواب پورا کر سکیں گے تاہم پھر اچانک انھیں استعفی دینا پڑا۔ سبب کیا تھا؟ یہ ایک دلچسپ لیکن شرمناک کہانی ہے جو ممتاز بین الاقوامی انگریزی جریدے اکانومسٹ نے شائع کی۔  اس کہانی نے ٹریبونل کی حقیقت اور Hasina Wajid کے منصوبے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ ہوا یوں کہ جسٹس نظام الحق نے برسلز میں ایک بنگالی قانون دان ضیا الدین سے بذریعہ سکائپ طویل گفتگو کی، مختلف نشستوں میں ہونے والی اس گفتگو کا مجموعی دورانیہ 17 گھنٹے تھا جبکہ دونوں شخصیات کے درمیان 320 ای میلز بھی ہوئیں۔ یہ ساری گفتگو اور ای میلز اکانومسٹ تک پہنچ گئیں۔  ان میں جسٹس نظام نے کہا:Hasina Wajid  حکومت چاہتی ہے کہ میں جلد سے جلد فیصلہ دوں، اور اس خواہش میں یہ لوگ پاگل لگتے ہیں۔ تم ہی بتاو، جب استغاثہ نالائقوں پر مشتمل ہے اور ان سے صحیح طریقے سے کیس پیش نہیں ہو رہا، تو اس میں میں کیا کروں؟ میں انھیں کمرہ عدالت میں ڈانٹتا ہوں، مگر ساتھ ہی پرائیویٹ چیمبر میں بلا کر کہتا ہوں، بھائی ناراض نہ ہوں، یہ سب ڈراما ہے تاکہ غیر جانبداری کا کچھ تو بھرم باقی رہے۔ پھر انھیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ کیا کہیں۔ اب تم ہی رہنمائی دو میں کس طرح معاملے کو انجام تک پہنچائوں۔ یہ گفتگو ثبوتوں کے ساتھ اکانومسٹ لندن کے خصوصی نمائندے نے جریدے کو اشاعت کے لئے بھیج دی،  جریدہ نے فون کر کے جسٹس نظام سے پوچھا کہ ہمارے پاس یہ رپورٹ ہے، وہ جواب میں کہنے لگے:  ایسا نہیں ہو سکتا، ہم تو عدالتی معاملات اپنی بیوی کے سامنے بھی زیربحث نہیں لاتے۔  پھر اکانومسٹ نے دسمبر 2012ء کے ایک شمارے میں، خلافِ معمول رسالے کے مدیر نے اپنے ادارتی نوٹ کے ساتھ ساری کہانی شائع کر دی جس نے بنگلہ دیش میں تہلکہ مچا دیا۔  یوں جسٹس نظام کے پاس استعفی دیئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ اقوام متحدہ نے Hasina Wajid حکومت کے قائم کردہ اس وار کرائمز ٹریبونل کے بارے میں کہا کہ یہ بین الاقوامی قانونی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ 2010 میں قائم ہونے والے اس خصوصی ٹربیونل کے تمام ججز کا تعلق بنگلہ دیش ہی سے ہے جبکہ اسے انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل  کا نام دیا گیا۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے بھی ٹربیونل کو بین الاقوامی معیار کے منافی قرار دیا ہے۔ جس معیار کا ٹریبونل ہے، اسی معیار کے ججز اور ویسے ہی گواہان۔ سب سے بڑی بات 42 برس بعد قائم ہونے والا یہ ٹریبونل، مقدمات اور پھانسیاں 9 اپریل 1974ء کو طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کی خلاف ورزی ہیں، جس کے فریقین پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تھے، معاہدے پر بنگلہ دیش کے وزیر برائے امور خارجہ کمال حسین، بھارت کے وزیر برائے امور خارجہ سورن سنگھ اور پاکستان کے وزیر مملکت برائے دفاع و امور خارجہ عزیز احمد نے نئی دہلی میں دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے میں واضح طور پر لکھا گیا تھا:  بنگلہ دیش نے شملہ معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ بنگلہ دیش کے وزیر اعظم نے پرزور انداز میں مفاہمت، اچھی ہمسائیگی اور برصغیر میں تا دیر قیامِ امن کے مقاصد میں مدد گار بننے کا اعلان کیا۔ اس (Vision) سے نئی روح اخذ کرتے ہوئے نیز برصغیر میں مفاہمت اور امن و استحکام کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر انہوں نے مشترکہ طور پر تجویز کیا  کہ گرفتار اور محصور افراد کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کی بنا پر حل کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے ایسے تمام افراد کی بیک وقت آبادکاری (Rehabilitation) کی جائے، سوائے ان جنگی قیدیوں کے، جن کے بارے میں حکومت بنگلہ دیش واضح الزامات کی بنا پر مقدمہ چلانا چاہے۔ 195 پاکستانی جنگی قیدیوں کے سوال کو تینوں وزرا نے خصوصی طور پر بحث میں شامل کیا  کیونکہ تینوں حکومتیں چاہتی تھیں کہ اس مسئلے کو برصغیر میں جلد از جلد مفاہمت، امن اور دوستی کے لیے حل کر دیا جائے۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ان جنگی قیدیوں نے جو زیادتیاں کیں اور جن جرائم کا ارتکاب کیا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے متعلقہ حصوں کے مطابق جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی (Genocide) میں اور بین الاقوامی طور پر اس پر اتفاق پایا جاتا ہے  کہ ان جرائم کی بنا پر جن کا ارتکاب 195 جنگی قیدیوں نے کیا ہے، کا محاسبہ کیا جائے گا اور قانون کے متعین طریق کار کو لاگو کیا جائے گا۔  حکومت پاکستان کے وزیر مملکت برائے دفاع و امور خارجہ نے کہا کہ حکومت پاکستان اس کی مذمت کرتی ہے  اور ان تمام جرائم پر گہرے دکھ کا اظہار کرتی ہے جن کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ تینوں وزرا نے یہ توجہ بھی دلائی کہ بنگلہ دیش تسلیم کرتے وقت حکومت پاکستان نے یہ اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان، بنگلہ دیش کے وزیر اعظم کی دعوت پر بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو معاف کر دیں اور فراموش کر دیں اور ایک نئے انداز سے آغاز کریں،  انہوں نے مزید کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے لوگ جانتے ہیں کہ معاف کس طرح کیا جاتا ہے۔ خصوصاً پاکستان کے وزیر اعظم کی بنگلہ دیش کے عوام کے نام اپیل، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ماضی کی غلطیوں کو فراموش کر دیا جائے،  بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے، مقدمات کو مزید جاری نہ رکھے گی۔ اس پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دیگر جنگی قیدیوں کی طرح 195 جنگی قیدیوں کو بھی پاکستان لے جایا جائے  اور دہلی معاہدے کی روشنی میں آبادکاری کا سلسلہ جاری کیا جائے۔ مذکورہ بالا اقتباسات اس معاہدہ کے چند حصے ہیں، جن لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے اور جنھیں پھانسیاں دی جا رہی ہیں،  ان کے نام نہ صرف 195 جنگی قیدیوں کی فہرست میں شامل نہیں تھے بلکہ عشروں تک انھیں مجرم کے طور پر کہیں درج نہیں کیا گیا تھا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ Hasina Wajid  نے جماعت اسلامی کے رہنمائوں پر اچانک مقدمات درج کر کے انھیں کیوں پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے، سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بنگلہ دیش کا دورہ شروع کرنے سے پہلے 30 جون 2011ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ بنگلہ دیش کی کم از کم 25 فیصد آبادی علانیہ طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظر نامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہو سکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کر دیں۔ من موہن سنگھ کی ڈکٹیشن کے بعد جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے خلاف ہاتھ ہلکا رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا چنانچہ ملزمان کو سنگین ترین سزا دینا شروع کر دی گئی۔ عوامی لیگ کے سوا بنگلہ دیش کی آزادی کی جد و جہد میں حصہ لینے والے باقی لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کا مذکورہ بالا سنگین جرائم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر، جو ماہر معاشیات، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے مشیر بھی رہے ہیں، انھوں نے پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں بنگلہ دیش کے دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز بیراتم سے بھی نوازا گیا۔ ان کا کہنا ہے: میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں 1971ء کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا۔ لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانشوروں اور صحافیوں کی بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بہت سے مقامات پر بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کر کے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ مزید یہ کہ  بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں بنگلہ دیش کے حوالے سے  بھارت کے موجودہ طرز ِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ 1971 میں (مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ) جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی پھانسیاں کیا رنگ لائیں گی؟ سعودی عرب کے بڑے اخبار عرب نیوز نے لکھا ہے: جماعت اسلامی کے خلاف ایسے اقدامات بیک فائر کریں گے۔ حکومت ملک کی سب سے منظم اور سب سے بڑی اسلامی جماعت کو ختم کرنے کی کوشش کر کے خودکشی کرے گی۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کو ملک کے سیاسی منظر نامے سے باہر کیا گیا  تو خدشہ ہے کہ 45 برس سے کم عمر جماعت کے ارکان اور حامی زیر زمین چلے جائیں اور ایسی سرگرمیاں شروع کر دیں جس سے پورا ملک عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے پہلے جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کی فہرست سے خارج کیا،  بعد ازاں حکومت نے جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دیدیا، اب شاید جماعت کے لوگوں کے پاس بقا کی جنگ لڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا۔

No comments.

Leave a Reply