چین نے تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا

 تائیوان کی پہلی خاتون صدر تسائی انگ وین اور چین کے صدر شی جن پنگ


تائیوان کی پہلی خاتون صدر تسائی انگ وین اور چین کے صدر شی جن پنگ

بیجنگ ۔۔۔ نیوز ٹائم

گزشتہ سال چین اور تائیوان کے صدور کی 1949ء کے بعد پہلی ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہونا شروع ہوئے تھے جو اب ایک بار پھر اس قدر کشیدہ ہو گئے ہیں کہ چین نے تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیئے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چینی سفیر کا کہنا تھا کہ تائیوان کے نئے سربراہ چینی قوم کے تصور کی حمایت نہیں کرتے اس لیے ان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے گئے ہیں۔ 1992میں دونوں ملکوں کے مابین اس امر پر اتفاق کیا گیا تھا کہ تائیوانی قیادت تائیوان کو چین کا حصہ سمجھے گی، مگر وہ اس اتفاق رائے پر عملدرآمد میں ناکام ہو چکے ہیں۔ امریکی اخبار کے مطابق چین کا یہ اقدام تائیوان کی پہلی خاتون (Tsai Ing Wen) پر دبائو بڑھانے کے لیے اٹھایا گیا ہے  جنہوں نے گزشتہ ماہ تائیوان کا صدارتی عہدہ سنبھالا ہے تائیوان کی آزادی ختم کرنے کے چینی مطالبے پر ناراضگی کا اظہار کر چکی ہیں۔ سابق تائیوانی صدر نے چین کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کیے تھے اور چینی صدر Xi Jinping سے بطور تائیوانی صدر کئی دہائیوں بعد ملاقات بھی کی تھی۔ اس معاملے پر تائیوانی حکام کا کہنا ہے کہ ہم چین کے ساتھ رابطہ بحال رکھنے کی کوشش کریں گے۔ تائیوان حکومت کے ترجمان  Tung Chen-yuan کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ تائیوان اور مرکزی سرزمین (چین) باہمی رابطہ برقرار رکھیں گی جو دونوں اطراف کے لیے فائدہ مند ہے۔ امریکہ کے بین الاقوامی امور کے ماہر Patrick M. Cronin کا کہنا ہے  کہ تائیوان کی صدر مسز Tsai Ing Wen منتخب ہونے کے بعد سے ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مسلسل چینی حکام پر تنقید کر رہی ہیں اور چین کے روایتی حریف جاپان وغیرہ کے ساتھ باہمی تعلقات کو فروغ دے رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مسز Tsai Ing Wen کی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی تائیوان کی آزادی کے حق میں ہے  اور ماضی میں چین، تائیوان کی ایسی کسی کوشش کو فوجی طاقت سے کچلنے کی دھمکی دے چکا ہے۔ اس تازہ کشیدگی کے باعث دونوں ممالک کے مابین تصادم کا سنگین خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ تائیوان 1949ء کے کمیونسٹ انقلاب کے دوران چین سے علیحدہ ہوا تھا۔

No comments.

Leave a Reply