ترکی حکومت کا درجنوں میڈیا ادارے بند کرنے کا اعلان

ترکی کا درجنوں میڈیا ادارے بند کرنے کا اعلان

ترکی کا درجنوں میڈیا ادارے بند کرنے کا اعلان

انقرہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

ترکی میں 15 جولائی کو حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد سے مختلف اداروں میں کریک ڈائون کا سلسلہ جاری ہے حکام نے اب میڈیا کے درجنوں ادارے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ترک حکام کی جانب سے 3 نیوز ایجنسیاں، 16 ٹی وی چینلز اور 23 ریڈیو اسٹیشن بند کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ 45 اخبارات 15 جریدوں اور 29 پبلشرز کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ادھر فوج کے تقریباً 1700 اہلکاروں کو جن میں 149 جنرل اور ایڈمرلز کو ان کے عہدوں سے معطل کیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس اقدام میں امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی اختیار کرنے والے ترکش رہنما فتح اللہ گولن کا ہاتھ ہے۔ خیال رہے کہ ترکی میں بغاوت کی ناکام کوششوں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 246 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 2000 سے زائد زخمی ہیں۔ ترکی کے سرکاری گیزٹ میں ذرائع ابلاغ کے اداروں اور فوجی اہلکاروں کی برطرفی کا اعلان کیا گیا۔ اگرچہ ابھی تک سرکاری طور پر کسی بھی ایسے میڈیا ادارے کا نام سامنے نہیں آیا جس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے تاہم مقامی میڈیا کے اندازوں کے مطابق پابندیوں کا سامنا کرنے والے میڈیا اداروں میں نسبتاً چھوٹے ادارے،  صوبائی سطح پر کام کرنے والے ادارے، متعدد روزنامے اور قومی سطح پر نشر و اشاعت کرنے والی ایجنسیاں شامل ہیں۔ اس سے قبل یہ اعداد و شمار سامنے آئے تھے کہ ترکی میں بغاوت کے بعد جاری کارروائیوں میں 47 صحافیوں کو حراست میں لینے کے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔ اس حکم سے چند دن پہلے ہی 42 نامہ نگاروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔ کریک ڈائون میں اب تک کم از کم 16 ہزار افراد کو حراست میں ہیں جبکہ 60 ہزار سرکاری ملازمین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے سربراہان کو معطل کیا جا چکا ہے۔ فوجی ملازمین کو نوکریوں سے معطل کیا گیا ہے ان میں 87 فوجی جنرل، 30 ایئر فورس کے جنرل اور 32 ایڈمرل شامل ہیں۔ خیال رہے کہ ترکی کے حوالے سے انسانی حقوق کے ادارے ایمنیٹسی انٹرنیشنل نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے  کہ ناکام بغاوت کی کوشش کے بعد ترکی سے مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ قید کیے جانے والوں کو مارا جاتا ہے اور ان سے جنسی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔ گذشتہ ہفتے ہی ترکی نے ملک میں 3 ماہ تک ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply